نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۲۰ مطلب در جولای ۲۰۲۰ ثبت شده است

تازہ غزل
 
شناخت اپنی کچھ اس طرح کھو چکا ہوں میں
کہ دریا ہو کے سمندر میں ضم ہوا ہوں میں
 
میں خود کو آئینہ تمثال کہہ نہیں سکتا
پئے مفاد کبھی جھوٹ بولتا ہوں میں
 
مجھے وہ کل کی طرح پیار سےمنائے گا 
سو اس سے آج یہی سوچ کر خفا ہوں میں
 
بیان کس سے کروں اپنے خواب؟ اے یوسف
جو شہر زیست کے زنداں میں دیکھتا ہوں میں
 
زمانہ صاحب دولت کہے تو کیا حیرت
تمہارے وصل کی دولت جو پا چکا ہوں میں
 
زمانہ مجھ کو ترے نام سے پکارتا ہے
کہ جب سے تری محبت میں مبتلا ہوں میں
 
تو میرے عشق کو بھی طول عمر دے یا رب
یہ رزق تجھ سے اے رزاق مانگتا ہوں میں
 
بتاو کیا مجھے بیساکھیوں کی حاجت ہے؟
کہ اپنے پاوں پہ اچھی طرح کھڑا ہوں میں
 
اے مشکلو مری جانب یہ سوچ کر آنا
کہ مشکلات کی آغوش میں پلا ہوں میں
 
میں ڈھو رہا ہوں مسلسل غم حیات کا بوجھ
خوشی کے واسطے نوری ترس گیا ہوں میں
 
محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 July 20 ، 19:14
محمد ابراہیم نوری نوری
Saturday, 25 July 2020، 01:50 AM

تو مرا یار گر نہیں ہوتا

تازہ غزل 

تو مرے پاسگر نہیں ہوتا
تجھ کو کھونے کا ڈر نہیں ہوتا

عشق تو ایک بار ہوتا ہے
عشق بار دگر نہیں ہوتا

کیا سمجھتے وصال کی لذت؟
درد_ہجراں اگر نہیں ہوتا

ہم بھی جائیں ادھر خدا نہ کرے
ذکر تیرا جدھر نہیں ہوتا

جس پہ بھی اعتبار کرتا ہوں
بس وہی معتبر نہیں ہوتا

کس قدر کھوکھلا سا لگتا ہے
جس صدف میں گہر نہیں ہوتا

دو قدم ساتھ راہ چلنے سے
ہم قدم، ہمسفر نہیں ہوتا

ہاں اسے قتل گاہ کہتے ہیں
جس جگہ تن پہ سر نہیں ہوتا

میں سوالی ہوں ایک ہی در کا
اس لئے در بدر نہیں ہوتا

 فضل ولطف و کرم ہےسورج کا
ورنہ نوری قمر نہیں پوتا.۔۔

 

 

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 July 20 ، 01:50
محمد ابراہیم نوری نوری

ہمیشہ درد کی دولت کو عام کرتے ہیں
ہم اہل عشق و محبت یہ کام کرتے ہیں

جو جان دے کے بچاتا ہے گوہر_عزت
ہم ایسے شخص کا صد احترام کرتے ہیں

میں ایسے شہر کو کیسے نہ قتل گاہ کہوں
جہاں پہ لوگ سدا قتل_ عام کرتے ہیں

جہان کن میں وہ مقتل بھی ہم نے دیکھا ہے
جہاں کٹے ہوئے سر بھی کلام کرتے ہیں

غریب شہر کو دیتے نہیں جواب_ سلام
امیر شہر کو جھک کر سلام کرتے ہیں

خدا پرست گھرانے کی یاد آتی ہے
جہاں بھی جب بھی ہم ذکر خیام کرتے ہیں

لبوں سے اپنے ہمیں تیری خوشبو آتی ہے
کہ جب بھی ورد زباں تیرا نام کرتے ہیں

یہ بات خاص ہے عاشق مزاج لوگوں میں
براہ چشم  بھی یہ نوش جام کرتے ہیں

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 July 20 ، 01:46
محمد ابراہیم نوری نوری
تازہ غزل
 
منفرد لہجہ جدا طرز_ بیاں رکھتے ہیں ہم
شاعری کے واسطے اردو زباں رکھتے ہیں ہم
 
یاد_ جاناں میں گزرتے ہیں ہمارے روز و شب
اور کسی کی یاد کی فرصت کہاں رکھتے ہیں ہم
 
توسن_ عمر_ رواں تھوڑا بہت آہستہ چل۔۔۔۔۔۔۔
ہر قدم پر خواہشوں کا اک جہاں رکھتے ہیں ہم
 
کون کہتا ہے ہمارے ہاتھ خالی ہو گئے۔۔۔۔۔۔
ماں کی صورت میں متاع_ دو جہاں رکھتے ہیں ہم
 
پیش ظالم جرائت اظہار حق ہوتی نہیں
ظاہرا رکھنے کو بس منہ میں زباں رکھتے ہیں ہم
 
زینت_ محفل بڑھانے کے لئے اے جان جاں
تیری یادوں کا دیا بس درمیاں رکھتے ہیں ہم 
 
آسمان غم کا سورج ہم کو کیا جھلسائے گا
تیری الفت کا جو سر پر سائباں رکھتے ہیں ہم 
 
کیا ہوا نوری اگر یہ جسم بوڑھا ہوگیا
جذبہء عشق و محبت تو جواں رکھتے ہیں ہم
 
محمد ابراہیم نوری
 
 
 
 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 July 20 ، 15:33
محمد ابراہیم نوری نوری
بزم استعارہ کی آج کی نشست میں پیش کی گئی 
غزل
 
 
کبھی ظلمت کو اجالا نہیں لکھا میں نے
جو برا پے اسے اچھا نہیں لکھا میں نے
 
عین ممکن ہے کہ سولی پہ چڑھایا جاوں
کسی کذاب کو سچا نہیں لکھا میں نے
 
کبھی غزلیں، کبھی نظمیں، کبھی فرقت نامے
یار کے ہجر میں کیا کیا نہیں لکھا میں نے
 
تذکرہ اپنی محبت کا کیا غزلوں میں
قصہء عشق_زلیخہ نہیں لکھا میں نے
 
دولت_ چشم بصیرت سے جو محروم رہا
ایسے اندھے کو تو بینا نہیں لکھا میں نے
 
دیکھ کر لوگ مجھے ہنس کے گزر جاتے ہیں
گرچہ چہرے پہ لطیفہ نہیں لکھا میں نے
 
تری یادیں تری باتیں جو مری ہمدم ہیں
خود کو تنہائی کا مارا نہیں لکھا میں نے
 
اک ہے معصوم_ محض اک ہے خطا کا پتلا
جبھی انساں کو فرشتہ نہیں لکھا میں نے
 
آئینہ دل کا بتنے، لفط میں یہ دم ہی کہاں
حال، یہ سوچ کر دل کا نہیں لکھا میں نے
 
عکس_ دریا جو کبھی بن نہ سکا اے نوری
ایسے قطرے کو تو قطرہ نہیں لکھا میں نے
 
محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 July 20 ، 05:12
محمد ابراہیم نوری نوری