تازہ غزل
تو مرے پاسگر نہیں ہوتا
تجھ کو کھونے کا ڈر نہیں ہوتا
عشق تو ایک بار ہوتا ہے
عشق بار دگر نہیں ہوتا
کیا سمجھتے وصال کی لذت؟
درد_ہجراں اگر نہیں ہوتا
ہم بھی جائیں ادھر خدا نہ کرے
ذکر تیرا جدھر نہیں ہوتا
جس پہ بھی اعتبار کرتا ہوں
بس وہی معتبر نہیں ہوتا
کس قدر کھوکھلا سا لگتا ہے
جس صدف میں گہر نہیں ہوتا
دو قدم ساتھ راہ چلنے سے
ہم قدم، ہمسفر نہیں ہوتا
ہاں اسے قتل گاہ کہتے ہیں
جس جگہ تن پہ سر نہیں ہوتا
میں سوالی ہوں ایک ہی در کا
اس لئے در بدر نہیں ہوتا
فضل ولطف و کرم ہےسورج کا
ورنہ نوری قمر نہیں پوتا.۔۔
ہمیشہ درد کی دولت کو عام کرتے ہیں
ہم اہل عشق و محبت یہ کام کرتے ہیں
جو جان دے کے بچاتا ہے گوہر_عزت
ہم ایسے شخص کا صد احترام کرتے ہیں
میں ایسے شہر کو کیسے نہ قتل گاہ کہوں
جہاں پہ لوگ سدا قتل_ عام کرتے ہیں
جہان کن میں وہ مقتل بھی ہم نے دیکھا ہے
جہاں کٹے ہوئے سر بھی کلام کرتے ہیں
غریب شہر کو دیتے نہیں جواب_ سلام
امیر شہر کو جھک کر سلام کرتے ہیں
خدا پرست گھرانے کی یاد آتی ہے
جہاں بھی جب بھی ہم ذکر خیام کرتے ہیں
لبوں سے اپنے ہمیں تیری خوشبو آتی ہے
کہ جب بھی ورد زباں تیرا نام کرتے ہیں
یہ بات خاص ہے عاشق مزاج لوگوں میں
براہ چشم بھی یہ نوش جام کرتے ہیں