Saturday, 11 July 2020، 05:12 AM
کبھی ظلمت کو اجالا نہیں لکھا میں نے
بزم استعارہ کی آج کی نشست میں پیش کی گئی
غزل
کبھی ظلمت کو اجالا نہیں لکھا میں نے
جو برا پے اسے اچھا نہیں لکھا میں نے
عین ممکن ہے کہ سولی پہ چڑھایا جاوں
کسی کذاب کو سچا نہیں لکھا میں نے
کبھی غزلیں، کبھی نظمیں، کبھی فرقت نامے
یار کے ہجر میں کیا کیا نہیں لکھا میں نے
تذکرہ اپنی محبت کا کیا غزلوں میں
قصہء عشق_زلیخہ نہیں لکھا میں نے
دولت_ چشم بصیرت سے جو محروم رہا
ایسے اندھے کو تو بینا نہیں لکھا میں نے
دیکھ کر لوگ مجھے ہنس کے گزر جاتے ہیں
گرچہ چہرے پہ لطیفہ نہیں لکھا میں نے
تری یادیں تری باتیں جو مری ہمدم ہیں
خود کو تنہائی کا مارا نہیں لکھا میں نے
اک ہے معصوم_ محض اک ہے خطا کا پتلا
جبھی انساں کو فرشتہ نہیں لکھا میں نے
آئینہ دل کا بتنے، لفط میں یہ دم ہی کہاں
حال، یہ سوچ کر دل کا نہیں لکھا میں نے
عکس_ دریا جو کبھی بن نہ سکا اے نوری
ایسے قطرے کو تو قطرہ نہیں لکھا میں نے
محمد ابراہیم نوری
20/07/11