نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۳ مطلب در جولای ۲۰۲۱ ثبت شده است

Sunday, 18 July 2021، 10:36 PM

طرحی غزل

انجمن ادبی اقبال لاہوری کے زیر اہتمام
منعقدہ طرحی مشاعرے میں پیش کی گئی طرحی غزل 
پیش خدمت ہے
 
طرحی غزل
 
کس طرح کا نصیب خدایا ملا ہمیں
کانٹوں بھرا ملا  جو بھی رستہ ملا ہمیں
 
قلب شکستہ۔دیدہء پرنم، غم فراق
دنیائے عشق میں یہ اثاثہ ملا ہمیں
 
پتھر مزاج شہر میں داخل جو ہم ہوئے 
بہر قیام آئینہ خانہ ملا ہمیں
 
اے زلف یار چھاوں تری یاد آگئی
صحرا میں جب درخت کا سایہ ملا ہمیں 
 
اے عاشق و خلیل خدا تیرا شکریہ
"تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں"
 
جن سے ہماری دوستی گہری رہی بہت
ان سے ہمیشہ زخم بھی گہرا ملا ہمیں 
 
یہ زندگی  بھی دیکھئے قسمت کا کھیل ہے
سکے ملے کسی کو تو کاسہ ملا ہمیں 
 
حمزہ صفت ملا ہے ملا جو بھی ہمسفر
دشمن بھی ہائے حامی ہندہ ملا ہمیں 
 
اپنوں کی بے وفائی ہمیں یاد آگئی
صحرا سے جب پھٹا ہوا کرتا ملا ہمیں 
 
ہر سانپ آستین کا ڈسنے لگا ہے اب
شہر سخن میں تھوڑا جو شہرہ ملا ہمیں 
 
زلف سیاہ یار تھی رخسار یار پر
یوں دیکھنے کو شب کا نظارہ  ملا ہمیں
 
کل تک جسے ہماری وفاؤں پہ ناز تھا
 آج اس سے بے وفائی کا طعنہ ملا ہمیں 
 
اکثر اسیر دام ضرورت ہوا ہے یہ
 دل تو ملا پہ  مثل پرندہ ملا ہمیں
 
پانی سمجھ لیا سر صحرا سراب کو
یوں بھی چمکتے ذرہ سے دھوکا ملا ہمیں
 
 نوری ہمارے دل میں  نہیں خوف گمرہی
جب سے تمہارا نقش کف پا ملا ہمیں
 
محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 July 21 ، 22:36
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 12 July 2021، 03:02 PM

جانم

جانم
 
تمہیں کیا کوئی لاحق غم ہے جانم
تمہاری آنکھ کیوں پرنم ہے جانم
 
ہمارے دل کی الماری کی زینت
تمہاری یاد کا البم ہے جانم
 
  سبب ہے یہ مری زندہ دلی کا
کہ دل میں عشق تیرا ضم ہے جانم
 
فقط تیری خوشی میری خوشی نئیں
ترا غم بھی تو میرا غم ہے جانم 
 
نگاہ محرمانہ ڈال مجھ پر
میں تیرا تو مرا محرم ہے جانم
 
شب تاریک کا اک استعارہ 
تمہاری کاکل پر خم ہے جانم
 
محبت کے سفر کو در حقیقت 
یہ عمر مختصرتو کم ہے جانم
 
میں ہوں دشت محبت کا مسافر
مرے قدموں تلےزمزم ہے جانم
 
ترے رخسار پر آنسو کا قطرہ
رخ نرگس پہ اک شبنم ہے جانم
 
نہیں ہے زخم ہجراں کا مجھے غم 
میسر وقت کا مرہم ہے جانم
 
یہ میری زندگی کیا ہے بتاوں؟
خوشی و غم کا اک سنگم ہے جانم
 
ترے بن دم گھٹا جاتا ہے میرا
ترے نوری کا یہ عالم ہے جانم
 
ابراہیم نوری ۔۔
 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 July 21 ، 15:02
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 12 July 2021، 02:51 PM

آستانے پر

تازہ غزل 
 
نہ کیوں  آوں مسلسل میں تمہارے آستانے پر 
سر افرازی یہاں ملتی ہے مجھکو سر جھکانے پر
 
سیے بیٹھے ہیں اپنے لب کو جو شہر ستمگر میں
انہیں کے سر سلامت ہیں ابھی تک ان کے شانے پر
 
سر شہرستم  ہم سب سے چھپ کر مسکراتے ہیں 
کہ پابندی نہ لگ جائے ہمارے مسکرانے پر
 
یہ دستار فضیلت میرے سر پر سج گئی جب سے
ہے سارا شہر ہی مائل مرے سر کو اڑانے پر
 
جو غافل تھے خدا سے دیکھ کر بس نا خداوں کو
پکار اٹھے خدا کو کشتیوں کے ڈگمگائے پر
 
اسے میں نے بنایا تھا چھپاکر چشم دنیا سے
تو پھر بجلی گرائی کس نے میرے آشیانے پر؟
 
ہماری خامشی پر ہم سے جو خوش باش رہتے تھے
وہ برہم ہوتے جاتے ہیں ہمارے لب ہلانے پر
 
چراغ رہگزر تا صبح  جلتا رہ گیا کیسے؟
ہوا مامور تھی شب بھر چراغوں کو بجھانے پر
 
 پرندوں نے جو کوشش کی قفس میں پھڑپھڑانے کی 
اٹھا صیاد اب انکے  کترنے یا جلانے پر
 
 نہیں ہے جسم کا دشمن وہ میرا دشمن جاں ہے 
 جبھی ہے روح میری تیر دشمن کے نشانے پر
 
نہ خوش ہو حلقہء احباب کی کثرت پہ اے نوری
بدل جائے گی قلت میں یہ کثرت وقت آنے پر
 
محمد ابراہیم نوری ۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 July 21 ، 14:51
محمد ابراہیم نوری نوری