نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۳۳ مطلب با موضوع «غزلیں» ثبت شده است

 
تازہ غزل 
 
کلفت نقل مکانی  سے جدا کیسے کروں ؟
خود کو اس غم کی گرانی سے جدا کیسے کروں؟
 
دشمنی  اپنی جگہ رات کی ظلمت  سے مری 
رات کو رات کی رانی  سے جدا کیسے کروں؟
 
رنگ آیا ہے حقیقت کا ترے ہونے سے
تجھکو اس جھوٹی کہانی  سے جدا کیسے کروں؟
 
عشق تو عہد جوانی کا  تقاضا ہے میاں 
عشق کو عہد جوانی سے جدا کیسے کروں؟
 
میں تمنائی ہوں دنیائے بقا کا لیکن 
خود کو اس عالم فانی  سے جدا کیسے کروں؟
 
مجھ سے  مچھلی کا تڑپنا نہیں دیکھا جاتا
میں کسی مچھلی کو پانی سے جدا کیسے کروں؟ 
 
مجھ کو معلوم ہے تکلیف جدائی کیا ہے؟
اک دوانے کو دوانی  سے جدا کیسے کروں؟
 
ایک دوجے کے لئے لازم و ملزوم ہیں یہ 
لفظ کو نوری معانی سے جدا کیسے کروں؟ 
 
 
محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 June 22 ، 20:41
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 11 April 2022، 01:39 AM

تلاش کروں

 
تازہ غزل 
 
عجیب شخص ہو کہتے ہو یاں تلاش کروں
ستم کے شہر میں جائے اماں تلاش کروں
 
مرا مزاج ذرا مختلف ہے دنیا سے
سو ہم مزاج میں اپنا کہاں تلاش کروں
 
نقوش پائے مسافر ہوا نے محو کئے
کہ اب میں کیسے رہ کارواں تلاش کروں
 
اک آستان سے ملتا ہے بے سوال مجھے
تو دوسرا کوئی کیوں آستاں تلاش کروں 
 
اب اس جہاں کہن میں یہ دل نہیں لگتا
کہ سوچتا ہوں نیا اک جہاں تلاش کروں
 
مری ہی آنکھ مرے دل کی رازداں نہ بنی
کہاں سے کوئی امیں رازداں تلاش کروں
 
سکوں سے رہنے نہیں دیتے یہ زمیں والے
یہ میرے بس نہیں آسماں تلاش کروں 
 
نہ پا سکا میں صدف, سطح آب پر نوری
ملے گا گر تہہ آب رواں تلاش کروں 
 
ابراہیم نوری 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 April 22 ، 01:39
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 27 December 2021، 03:43 PM

انتہائے عشق

غزل 2
 
یہ ابتدائے عشق ہے یا انتہائے عشق؟
دیتا ہے کوئی دار سے ہنس کر صدائے عشق
 
کہتے ہیں لوگ مجھکو فقیر و گدائے عشق
کشکول میں ہیں میرے فقط سکہ ہائے عشق
 
نفرت کی نذر کیوں کروں اپنی حیات دل
 یہ دل عطا ہوا ہے مجھے بس برائے عشق
 
ممکن نہیں کہ ٹھہرے یہاں کاروان عقل
ہے صاحبان  دل سے ہی مختص سرائے عشق
 
پوچھا خرد سے حضرت اقبال نے یہی 
کودا ہے کوئی آگ میں کیا ماسوائے عشق؟
 
عشاق کی نگاہ میں دل کے مریض ہیں
رکھتے ہیں دل  میں بغض جو نوری بجائے عشق
 
محمد ابراہیم نوری 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 December 21 ، 15:43
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 27 December 2021، 03:15 PM

قبائے عشق

تازہ غزل 
 
اہل ہوس سے اسکو بچا لے خدائے عشق
تن پر سجی ہوئی ہے مرے جو قبائے عشق
 
کار عبث ہے  اہل خرد سے یہ پوچھنا 
اہل جنوں سے پوچھئے رمز بقائے عشق
 
آنکھوں میں نم ہے، بال پریشاں,گریباں چاک
کیسے تجھے کہوں نہ بھلا مبتلائے عشق
 
یہ بوالہوس،حریص اسے کیا گرائیں گے؟
دل کی زمیں پہ رکھی گئی ہے بنائے عشق
 
نام و نشان شہر ہوس کب کا مٹ چکا
باقی ہے آب و تاب سے کربوبلائے عشق
 
بعض و ستم کی دھوپ سے خائف نہیں ہوں میں 
سودائے عشق سر میں ہے سر پر لوائے عشق
 
وہ چاہتا ہے زندہ رہوں بعد مرگ بھی
ساقی پلادے نوری کو جام بقائے عشق
 
محمد ابراہیم نوری 
۔۔۔۔۔۔۔۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 December 21 ، 15:15
محمد ابراہیم نوری نوری
Sunday, 18 July 2021، 10:36 PM

طرحی غزل

انجمن ادبی اقبال لاہوری کے زیر اہتمام
منعقدہ طرحی مشاعرے میں پیش کی گئی طرحی غزل 
پیش خدمت ہے
 
طرحی غزل
 
کس طرح کا نصیب خدایا ملا ہمیں
کانٹوں بھرا ملا  جو بھی رستہ ملا ہمیں
 
قلب شکستہ۔دیدہء پرنم، غم فراق
دنیائے عشق میں یہ اثاثہ ملا ہمیں
 
پتھر مزاج شہر میں داخل جو ہم ہوئے 
بہر قیام آئینہ خانہ ملا ہمیں
 
اے زلف یار چھاوں تری یاد آگئی
صحرا میں جب درخت کا سایہ ملا ہمیں 
 
اے عاشق و خلیل خدا تیرا شکریہ
"تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں"
 
جن سے ہماری دوستی گہری رہی بہت
ان سے ہمیشہ زخم بھی گہرا ملا ہمیں 
 
یہ زندگی  بھی دیکھئے قسمت کا کھیل ہے
سکے ملے کسی کو تو کاسہ ملا ہمیں 
 
حمزہ صفت ملا ہے ملا جو بھی ہمسفر
دشمن بھی ہائے حامی ہندہ ملا ہمیں 
 
اپنوں کی بے وفائی ہمیں یاد آگئی
صحرا سے جب پھٹا ہوا کرتا ملا ہمیں 
 
ہر سانپ آستین کا ڈسنے لگا ہے اب
شہر سخن میں تھوڑا جو شہرہ ملا ہمیں 
 
زلف سیاہ یار تھی رخسار یار پر
یوں دیکھنے کو شب کا نظارہ  ملا ہمیں
 
کل تک جسے ہماری وفاؤں پہ ناز تھا
 آج اس سے بے وفائی کا طعنہ ملا ہمیں 
 
اکثر اسیر دام ضرورت ہوا ہے یہ
 دل تو ملا پہ  مثل پرندہ ملا ہمیں
 
پانی سمجھ لیا سر صحرا سراب کو
یوں بھی چمکتے ذرہ سے دھوکا ملا ہمیں
 
 نوری ہمارے دل میں  نہیں خوف گمرہی
جب سے تمہارا نقش کف پا ملا ہمیں
 
محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 July 21 ، 22:36
محمد ابراہیم نوری نوری