Monday, 12 July 2021، 02:51 PM
آستانے پر
تازہ غزل
نہ کیوں آوں مسلسل میں تمہارے آستانے پر
سر افرازی یہاں ملتی ہے مجھکو سر جھکانے پر
سیے بیٹھے ہیں اپنے لب کو جو شہر ستمگر میں
انہیں کے سر سلامت ہیں ابھی تک ان کے شانے پر
سر شہرستم ہم سب سے چھپ کر مسکراتے ہیں
کہ پابندی نہ لگ جائے ہمارے مسکرانے پر
یہ دستار فضیلت میرے سر پر سج گئی جب سے
ہے سارا شہر ہی مائل مرے سر کو اڑانے پر
جو غافل تھے خدا سے دیکھ کر بس نا خداوں کو
پکار اٹھے خدا کو کشتیوں کے ڈگمگائے پر
اسے میں نے بنایا تھا چھپاکر چشم دنیا سے
تو پھر بجلی گرائی کس نے میرے آشیانے پر؟
ہماری خامشی پر ہم سے جو خوش باش رہتے تھے
وہ برہم ہوتے جاتے ہیں ہمارے لب ہلانے پر
چراغ رہگزر تا صبح جلتا رہ گیا کیسے؟
ہوا مامور تھی شب بھر چراغوں کو بجھانے پر
پرندوں نے جو کوشش کی قفس میں پھڑپھڑانے کی
اٹھا صیاد اب انکے کترنے یا جلانے پر
نہیں ہے جسم کا دشمن وہ میرا دشمن جاں ہے
جبھی ہے روح میری تیر دشمن کے نشانے پر
نہ خوش ہو حلقہء احباب کی کثرت پہ اے نوری
بدل جائے گی قلت میں یہ کثرت وقت آنے پر
محمد ابراہیم نوری ۔
21/07/12