تصور میں پھر کوئی آنے لگا ہے
مجھے یاد، ماضی دلانے لگا ہے
تجھے دل سے میں نے بھلایا ہی کب تھا
جو تو اس قدر یاد آنے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی سے کبھی جاں چھرکتا تھا ہم پر
وہی ہم سے اب جاں چھڑانے لگا پے
کوئی قید زنداں سے آزاد ہوکر
قفس سے پرندے اڑانے لگا ہے
ہے گھر میں وہی اب نگاہوں کا مرکز
جو دو چار پیسے کمانے لگا ہے
مری شعر گوئی کا تھا جو مخالف
مری ہی غزل گنگنانے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوائے اجل شہر میں چل رہی ہے
سو سب کو خدا یاد آنے لگا ہے
بچھاتا تھا جو میری راہوں میں پلکیں
وہ رستے میں کانٹے بچھانے لگا ہے۔۔۔
کوئی اب مرے گھر میں آتا نہیں ہے
کہ جب سے تو گھر آنے جانے لگا ہے
سر خیمہء جاں اجالے کی خاطر
سنا ہے کوئی دل جلانے لگا ہے
ترے ساتھ گزرا جو اک پل خوشی کا
وہ لمحہ مجھے اب رلانے لگا ہے
اگر دیکھ لے کوئی تو کیا کہے گا
تو نوری یوں ہی مسکرانے لگا ہے
محمد ابراہیم نوری
جس طرف تیرا نقش پا ہی نہیں
یہ قدم اس طرف اٹھا ہی نہیں
وہ چلا پے تلاش منزل میں
راستے کا جسے پتہ ہی نہیں
جو مخالف ہوا سے بجھ جائے
میرے نزدیک وہ دیا ہی نہیں
فکر حفظ وطن نہ ہو جسکو
وہ ملازم تو ہے سپاہی نہیں
جسکی تعبیر غیر ممکن ہو
خواب ایسا میں دیکھتا ہی نہیں
بغص آل نبی ہے ایسا مرض
جسکی دنیا میں کچھ دوا ہی نہیں
ایک جھوٹے نے سچ کہا اک دن
جب میں سچا تھا کچھ ملا ہی نہیں
رنج و غم کے بنا جو مل جائے
اس خوشی کا کوئی مزا ہی نہیں
پیش حق جس نے سر جھکایا تھا
اسکا سر پھر کہیں جھکا ہی نہیں
جسکی خاطر میں بن سنورتا ہوں
میری جانب وہ دیکھتا ہی نہیں
روٹی کپڑا،مکان سے ہٹ کر
نوری کچھ اور سوچتا ہی نہیں
محمد ابراہیم نوری۔