Friday, 19 June 2020، 02:42 PM
متاع عشق و محبت تو پاس ہے پھر بھی
تازہ غزل
متاع عشق و محبت تو پاس ہے پھر بھی
نہ جانے کیوں یہ میرا دل اداس ہے پھر بھی
یمارے عہد میں یہ حال صنف نسواں ہے
لباس جسم پہ ہے، بے لباس ہے پھر بھی
نہ جانے کس لئے ہے مبتلائے کار_ جنوں
وہ شخص صاحب_ ہوش و حواس ہے پھر بھی
گھلا ہے اس کے سخن میں تو زہر نفرت کا
پہ اسکو حرف محبت کا پاس ہے پھر بھی
اگرچہ شہر سے رخصت ہوئی ہوائے اجل
پہ چھایا شہر پہ خوف و ہراس ہے پھر بھی
میں جانتا ہوں کہ وہ میرا ہو نہیں سکتا
پہ دل کا کیا کروں اس دل کو آس پے پھر بھی
وہ مجھ کو دیکھ کے پہچان کیوں نہیں پایا
وہ شخص یوں تو قیافہ شناس ہے پھر بھی
ترس رہی ہے مری زندگی خوشی کے لئے
زبان _نوری پہ حرف_ سپاس ہے پھر بھی
20/06/19