نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۳۵ مطلب با موضوع «غزلیں» ثبت شده است

Friday, 19 June 2020، 07:37 PM

غزل 15

 
غزل
میرے گلے میں کوئی بات کیوں اٹکتی ہے۔۔۔۔۔۔
کسی کی چشم غضب مجھکو جب بھی تکتی ہے
 
 دکھائی دیتی ہے وہ اور بھی حسین و جمیل
کہ اس کے سر سے ردا خود سے جب سرکتی ہے
 
اسی امید پہ میں جی رہا ہوں آج تلک۔۔۔۔۔۔۔
کہ ایک دن میری قسمت بدل بھی سکتی ہے
 
جو کر ریے ہیں خوشامد زبان سے ہردم
پہ دل میں آتش نفرت بہت لپکتی ہے
 
ہو گر خلوص پہ مبنی محبتوں کا سفر
تو اسمیں جسم ہے  تھکتا  نہ روح تھکتی ہے
 
سبھی ہیں مہر بہ لب مرد کے بھٹکنے پر
تو شور کیسا اک عورت ذرا بھٹکتی ہے؟
 
سمیٹو زاد سفر کچھ تو آخرت کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری سانس کسی وقت رک بھی سکتی ہے
 
سکون قلب کی دولت تجھے ملے کیونکر
حسد کی آگ تیرے دل میں گر بھڑکتی ہے
 
اسی سے آج بھی سب دور ہونے لگتے ہیں
کسی سے تھوڑی سی غربت اگر چپکتی ہے
 
ضرور ہوتا ہے پیاسے کو آب کا دھوکہ
ذرا بھی ریتی اگر دشت میں چمکتی ہے
 
وہاں تو آیئنگے پتھر ضرور اے لوگو
کسی شجر پہ جہاں  فصل تازہ پکتی ہے
 
اگر نہیں ہوا دیدار یار اے نوری
تمھاری آنکھوں سے پھرکیوں خوشی چھلکتی ہے
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 June 20 ، 19:37
محمد ابراہیم نوری نوری
Friday, 19 June 2020، 07:28 PM

غزل 14

        غزل
 
جب بھی گیسو تیرے بکھرتے ہیں
مردہ جذبات پھر ابھرتے ہیں
 
ذکر تیرا ہے زینت محفل
اس لئے تیری بات کرتے ہیں
 
جو ستائے ہوئے ہیں الفت کے
گاہے جیتے ہیں گاہے مرتے ہیں
 
بھول جاتے ہیں تشنگی اپنی
دشت الفت سے جو گزرتے ہیں
 
اک جھلک تجھکو دیکھنے کے لئے
تیرے کوچے سے ہم گزرتے ہیں
 
وہ ہیں مکار، معتبر تو نہیں
اپنےوعدوں سے جو جو مکرتے ہیں
 
آپ کا نام جب بہادر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کیوں مشکلوں سے ڈرتے ہیں
 
اے طبیب بدن بتا تو سہی؟
روح کے زخم کیسے بھرتے ہیں۔۔۔
 
صاحب حسن خلق انساں ہی 
غیر کے دل میں بھی اترتے ہیں
 
کیا ارداہ ہے جان لینے کا
آپ کیوں اس قدر سنورتے ہیں
 
محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 June 20 ، 19:28
محمد ابراہیم نوری نوری
Friday, 19 June 2020، 07:23 PM

غزل 12

غزل زندگی
 
ہے عطائے ذات باری زندگی۔۔۔
اس لئے ہے جاں سے پیاری زندگی
 
روز و شب فکر معیشت اور بس
زندگی ہے کیا ہماری زندگی
 
بے مزہ بے فائدہ بے کار ہے
ہے محبت سے جو عاری زندگی
 
زندگی ہے اس جہاں کی دائمی
ہے یہاں کی اعتباری زندگی
 
زندگی سے مطمئن ہوں اس لئے
تیری چاہت میں گزاری زندگی
 
دو طرح کی زندگی دیکھی گئی
پہلی نوری دوجی ناری زندگی
 
 
 
محمد ابراہیم نوری پاکستان
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 June 20 ، 19:23
محمد ابراہیم نوری نوری
Friday, 19 June 2020، 07:19 PM

غزل 11

غزل
 
خدا کا نام لئے گھر سے جو نکلتے ہیں..
تو مشکلات کے طوفان خود ہی ٹلتے ہیں...
 
نشانِ منزلِ مقصود پا نہیں سکتے
ہر ایک گام پہ جو راستہ بدلتے ہیں.... 
 
یہ شہرِ امن تھا پہلے،ہے اب یہ شہرِ ستم...
سو خوفِ ظلم سے سب گھر سے کم نکلتے  ہیں..
 
غریبِ شہر کا پرسانِ حال کوئی نہیں
امیرِ شہر سے مِلنے کو سب مچلتے ہیں...
 
فلاح و فوز کی دولت اُنہیں کو ملتی ہے....
جو اپنی خواہشِ نفسی کا سر کُچلتے ہیں...
 
جو سر فرازئ  یاراں سے خوش نہیں ہوتے...
سدا وہ آتشِ بغض و حسد میں جلتے ہیں..
 
وہ گویا اپنی حقیقت کو بھول بیٹھےہیں......
تکبُّرانہ چلن سے جو راہ چلتے ہیں....
 
اسی کا نام ہے مرقوم صفحہء دل پر..
وہ جس کے نام سے گِر تے ہوئے سنبھلتے ہیں .....
 
جو کل نہ جان سکے تھے شباب کی قیمت....
  یہ پِیر، کیوں کفِ افسوس آج  ملتے ہیں ...؟
 
زمانہ آگیا پھر ظلم و بربریت کا
ستمگراں سرِ مظلوم پھر کُچلتے ہیں...
  
دیارِ دانش و بینش میں ہے قیام میرا ...
جہاں علوم کے چشمے بہت اُبلتے ہیں ....(1 )
 
ہے مال و زن میں وہ طاقت کہ جس کے زیرِ اثر...
بڑے بڑوں کے قدم ایک دم پھسلتے ہیں 
 
عجب اثر ہے اے نوری زبانِ الفت میں
مثالِ موم ،بڑے سنگدل پگھلتے ہیں...
 
کلام:محمد ابراہیم نوری
 
(1)قم المقدس کی طرف اشارہ ہے
    
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 June 20 ، 19:19
محمد ابراہیم نوری نوری
Friday, 19 June 2020، 07:16 PM

غزل 10

تازہ غزل
 
ایک دہلیز پہ پیشانی جھکا رکھی ہے
آبرو اپنی زمانے میں بچا رکھی ہے........
 
حق و باطل کے میاں فیصلہ آساں ہوگا
جس نے بھی پیش نظر کربوبلا رکھی ہے
 
شہر یہ شہر خموشاں کی طرح کیوں ہے خموش
کیا تکلم  پہ بھی پابندی لگا رکھی ہے۔۔۔۔۔۔
 
اپنی شہرت پہ نہ اترا اے طبیب ناداں۔۔۔۔
ترے ہاتھوں میں خدا ہی نے شفا رکھی ہے
 
صرف صحرا کا تصور ہی کیا تھامیں نے 
اس تصور نے مری پیاس بڑھا رکھی ہے
 
اب تو چہرے بھی میں پڑھ پڑھ کے بتا سکتا ہوں
تیغ داماں تلے, کس کس نے چھپا رکھی ہے
 
لب پہ دریا کے  ہوا تیز چلا کرتی ہے.....
شمع ساحل پہ یہ پھر کس نے جلا رکھی ہے
 
اب امیروں کا ارادہ ہے اجاڑیں اسکو
ایک بستی جو غریبوں نے بسا رکھی ہے
 
ہر بہو کا یہ گلہ شکوہ بجا ہے کہ نہیں؟
آگ ہر ساس نے ہر گھر میں لگا رکھی ہے
 
باپ کا سایہ ابھی سر پہ ترے قائم ہے
شکل کیوں تو نے یتمیوں سی بنا رکھی ہے
 
تیرے ہر قول و عمل میں ہے تصادم واعظ
سر پہ پھر کس لئے دستار سجا رکھی ہے؟
 
رابطہ توڑ بھی سکتا نہیں اس سے نوری
مصلحت پر جو تعلق کی بنا رکھی ہے
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 June 20 ، 19:16
محمد ابراہیم نوری نوری