Friday, 19 June 2020، 07:19 PM
غزل 11
غزل
خدا کا نام لئے گھر سے جو نکلتے ہیں..
تو مشکلات کے طوفان خود ہی ٹلتے ہیں...
نشانِ منزلِ مقصود پا نہیں سکتے
ہر ایک گام پہ جو راستہ بدلتے ہیں....
یہ شہرِ امن تھا پہلے،ہے اب یہ شہرِ ستم...
سو خوفِ ظلم سے سب گھر سے کم نکلتے ہیں..
غریبِ شہر کا پرسانِ حال کوئی نہیں
امیرِ شہر سے مِلنے کو سب مچلتے ہیں...
فلاح و فوز کی دولت اُنہیں کو ملتی ہے....
جو اپنی خواہشِ نفسی کا سر کُچلتے ہیں...
جو سر فرازئ یاراں سے خوش نہیں ہوتے...
سدا وہ آتشِ بغض و حسد میں جلتے ہیں..
وہ گویا اپنی حقیقت کو بھول بیٹھےہیں......
تکبُّرانہ چلن سے جو راہ چلتے ہیں....
اسی کا نام ہے مرقوم صفحہء دل پر..
وہ جس کے نام سے گِر تے ہوئے سنبھلتے ہیں .....
جو کل نہ جان سکے تھے شباب کی قیمت....
یہ پِیر، کیوں کفِ افسوس آج ملتے ہیں ...؟
زمانہ آگیا پھر ظلم و بربریت کا
ستمگراں سرِ مظلوم پھر کُچلتے ہیں...
دیارِ دانش و بینش میں ہے قیام میرا ...
جہاں علوم کے چشمے بہت اُبلتے ہیں ....(1 )
ہے مال و زن میں وہ طاقت کہ جس کے زیرِ اثر...
بڑے بڑوں کے قدم ایک دم پھسلتے ہیں
عجب اثر ہے اے نوری زبانِ الفت میں
مثالِ موم ،بڑے سنگدل پگھلتے ہیں...
کلام:محمد ابراہیم نوری
(1)قم المقدس کی طرف اشارہ ہے
20/06/19