نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۳۴ مطلب با موضوع «غزلیں» ثبت شده است

وقت مشکل ہے پہ یہ وقت گزر جائے گا
یار و اغیار کا ہاں فیصلہ کر جائے گا

ٹھوکریں گردش ایام کی گر کھائے گا
پیار کا بھوت ترے سر سے اتر جائے گ

کب تلک ضبط کرے گا بھلا سورج کی تپش
پھول تو پھول ہے اک روز بکھر جائے گا

مدتوں بعد بھی زندہ ہے بچھڑ کر مجھ سے
بن میرے اس نے کہا تھا کہ وہ مر جائے گا

شدت عشق و محبت میں کمی آئے گی
یار کی دید کو تو روز اگر جائے گا

رکھ کے آداب دعا پیش نظر اے داعی
تو دعا کر ترا دامن ابھی بھر جائے گا

آئے گا ایسا برا وقت بھی،سوچا ہی تھا
بیچنے اپنا ہنر اہل ہنر جائے گا؟

جانے گھر والوں کو کس درجہ مسرت ہوگی
صںبح کا بھولا اگر شام کو گھر جائے گا

تجھ کو ہو جائے گی دنیا کی حقیقت معلوم
جب جنازہ ترا مرقد میں اتر جائے گا

زندگی میں تو پلٹ کر اسے دیکھا ہی نہیں
بہر تدفین مگر سارا نگر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشق محبوب کی لذت ہو میسر جسکو
جانب دار بھی بے بے خوفو خطر جائےگا

فیصلہ ہوگا عدالت میں اسی کے حق میں
بہر قاضی جو لئے کیسہء زر جائے گا

دور سے پانی لگے گا پہ نہ ہوگا پانی
تشنہ لب دشت میں جس سمت بھی گر جائے گا

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:21
محمد ابراہیم نوری نوری
مری بستی میں جتنی لڑکیاں ہیں
خدا کا شکر پردے والیاں ہیں
 
میں انساں ہوں فرشتہ تو نہیں ہوں
سو مجھ میں بھی یقینا خامیاں ہیں
 
تمھارے بن میری حالت ہے ایسی
بنا پانی کے جیسی کشتیاں ہیں
 
چلیں سوچیں ذرا اس مسئلے پر
ہمارے درمیاں کیوں دوریاں ہیں
 
میں خود کو کیوں بھلا سمجھوں گا تنہا
مری ہمدم مری تنہائیاں ہیں۔۔۔
 
کبھی لوگوں کے چہرے بھی پڑھا کر
رقم چہروں پہ بھی سچائیاں ہیں
 
ہمارے اپنے بھی ہیں اجنبی سے
ہماری جب سے خالی جھولیاں ہیں
 
ہمارے دیس میں معیار عزت
نہیں انسانیت،بس کرسیاں ہیں
 
مری والے بھی آتے ہیں یہاں پر
کہ بلتستاں میں ایسی وادیاں ہیں
 
خیانت مت کرو خاک وطن سے
کہ تیرے تن پہ خاکی وردیاں ہیں
 
چھپی ہے ان میں ظالم کی تباہی
لب مظلوم پر جو سسکیان ہیں
 
اسے کہتے ہیں پھولوں سے محبت
ہمییشہ گلستاں میں تتلیاں ہیں
 
نہ گھورو راہ چلتی لڑکیوں کو۔۔۔۔۔۔
تمہارے گھر میں بھی تو بیٹیاں ہیں
 
وہ جن کو دیکھ کر رب یاد آئے
جہاں میں ایسی بھی کچھ ہستیاں ہیں
 
اٹھا لائے تو ہو تم سیپیوں کو
مزین موتیوں سےسیپیاں ہیں؟
 
نہ گھبرانا اے نوری مشکلوں سے۔۔۔
کہ مشکل میں چھپی آسانیاں ہیں۔
 
محمد ابراہیم نوری
 
 
غزل 4
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:18
محمد ابراہیم نوری نوری
Sunday, 21 June 2020، 01:16 AM

کس قدر خوش نصیب ہوتے ہیں

غزل 

کس قدر خوش نصیب ہوتے ہیں
جو شریف و نجیب ہوتے ہیں

کیا نہیں ہوتے قابل_ عزت؟
دہر میں جو غریب ہوتے ہیں

بے خرد دوستوں سے تو بہتر
ہاں رقیب_ لبیب ہوتے ہیں

در پہ اب سائلوں کی دستک سے
صد پریشاں مجیب ہوتے ہیں

جان لیتے ہیں جو مریضوں کی
کیا وہ قاتل طبیب ہوتے ہیں؟

کیوں محبت کی راہ میں ہی سدا؟
غم ہی پیہم نصیب ہوتے ہیں۔۔۔۔

لوگ بس ان کو تکتے رہتے ہیں
ظاہرا جو شبیب ہوتے ہیں

سرفرازی انہیں کو ملتی ہے
وہ جواہل_ شکیب ہوتے ہیں

دور رہ کر بھی ظاہرا کچھ لوگ
دل کے بے حد قریب ہوتے ہیں

گلستان_ ادب میں اے نوری
نغمہ خواں بس ادیب ہوتے ہیں

محمد ابراہیم نوری

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:16
محمد ابراہیم نوری نوری
Sunday, 21 June 2020، 01:06 AM

جسکی خاطر سجائی محفل ہے

غزل
 
جسکی خاطر سجائی محفل ہے
کیوں رسائی اسی کی مشکل ہے؟
 
زندگی کیا ہے؟ میں بتاتا ہوں
ایک مجموعہء مسائل ہے۔۔۔۔۔
 
اسکو بھی تو سزا ملے کوئی
جو میری خواہشوں کا قاتل ہے
 
پہلے وہ مجھ پہ جاں چھڑکتا تھا
اب میرے دشمنوں میں شامل ہے
 
دست قاتل بھلا نہ کیوں لرزیں
تیر کا رخ جو سوئے بسمل ہے
 
رہتی دنیا تلک یہ کربوبلا
حق و باطل میں حد فاصل ہے
 
ہونے والا ہے کچھ برا شاید
آج کل مضطرب میرا دل ہے
 
باپ بولا ادا کروں کیسے
اس قدر پانی گیس کا بل ہے
 
وہ فصیل انا گرانی ہے
جو ہمارے میان حائل ہے
 
ایک دن غم تو ایک روز خوشی
بس یہی زندگی کا حاصل ہے
 
آج کے دور میں جسے دیکھو
مقصد زندگی سے غافل ہے
 
کیسے کھاتے ہو شوق سے نوری
خالی فلفل سے یہ فلافل ہے(1)
 
(1)فلفل فارسی میں مرچ کو کہتے ہیں
اور فلافل برگر وغیرہ کو
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:06
محمد ابراہیم نوری نوری
Friday, 19 June 2020، 07:37 PM

غزل 15

 
غزل
میرے گلے میں کوئی بات کیوں اٹکتی ہے۔۔۔۔۔۔
کسی کی چشم غضب مجھکو جب بھی تکتی ہے
 
 دکھائی دیتی ہے وہ اور بھی حسین و جمیل
کہ اس کے سر سے ردا خود سے جب سرکتی ہے
 
اسی امید پہ میں جی رہا ہوں آج تلک۔۔۔۔۔۔۔
کہ ایک دن میری قسمت بدل بھی سکتی ہے
 
جو کر ریے ہیں خوشامد زبان سے ہردم
پہ دل میں آتش نفرت بہت لپکتی ہے
 
ہو گر خلوص پہ مبنی محبتوں کا سفر
تو اسمیں جسم ہے  تھکتا  نہ روح تھکتی ہے
 
سبھی ہیں مہر بہ لب مرد کے بھٹکنے پر
تو شور کیسا اک عورت ذرا بھٹکتی ہے؟
 
سمیٹو زاد سفر کچھ تو آخرت کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری سانس کسی وقت رک بھی سکتی ہے
 
سکون قلب کی دولت تجھے ملے کیونکر
حسد کی آگ تیرے دل میں گر بھڑکتی ہے
 
اسی سے آج بھی سب دور ہونے لگتے ہیں
کسی سے تھوڑی سی غربت اگر چپکتی ہے
 
ضرور ہوتا ہے پیاسے کو آب کا دھوکہ
ذرا بھی ریتی اگر دشت میں چمکتی ہے
 
وہاں تو آیئنگے پتھر ضرور اے لوگو
کسی شجر پہ جہاں  فصل تازہ پکتی ہے
 
اگر نہیں ہوا دیدار یار اے نوری
تمھاری آنکھوں سے پھرکیوں خوشی چھلکتی ہے
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 June 20 ، 19:37
محمد ابراہیم نوری نوری