نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۳۴ مطلب با موضوع «غزلیں» ثبت شده است

Monday, 6 July 2020، 04:23 PM

متاع عشق و محبت

متاع عشق و محبت تو پاس ہے پھر بھی
 
متاع عشق و محبت تو پاس ہے پھر بھی
نہ جانے کیوں یہ میرا دل اداس ہے پھر بھی
 
یمارے عہد میں یہ حال صنف نسواں ہے
لباس جسم پہ ہے، بے لباس ہے پھر بھی
 
نہ جانے کس لئے ہے مبتلائے کار_ جنوں
وہ شخص صاحب_ ہوش و حواس ہے پھر بھی
 
گھلا ہے اس کے سخن میں تو زہر نفرت کا
پہ اسکو حرف محبت کا پاس ہے پھر بھی
 
اگرچہ شہر سے رخصت ہوئی ہوائے اجل
پہ چھایا شہر پہ خوف و ہراس ہے پھر بھی
 
میں جانتا ہوں کہ وہ میرا ہو نہیں سکتا
پہ دل کا کیا کروں اس دل کو آس پے پھر بھی
 
وہ مجھ کو دیکھ کے پہچان کیوں نہیں پایا
وہ شخص یوں تو قیافہ شناس ہے پھر بھی
 
ترس رہی ہے مری زندگی خوشی کے لئے
 زبان _نوری پہ  حرف_ سپاس ہے پھر بھی
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 July 20 ، 16:23
محمد ابراہیم نوری نوری
Sunday, 21 June 2020، 07:12 PM

زندگی

زندگی

ہے عطائے ذات باری زندگی۔۔۔
اس لئے ہے جاں سے پیاری زندگی

روز و شب فکر معیشت اور بس
زندگی  ہے کیا ہماری زندگی 

بے مزہ بے فائدہ بے کار ہے
ہے محبت سے جو عاری زندگی

 زندگی ہے اس جہاں کی دائمی 
ہے یہاں کی اعتباری زندگی

زندگی سے مطمئن ہوں اس لئے
تیری چاہت میں گزاری زندگی

دو طرح کی زندگی دیکھی گئی
ایک نوری دوجی ناری زندگی

محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 19:12
محمد ابراہیم نوری نوری

غزل"

کیا ہے کام یہ لیل و نہار آنکھوں نے
دکھایا جلوہ پروردگار آنکھوں نے

کبھی دکھایا ہے پژمردہ باغ فضل خزاں۔۔۔
کبھی دکھائی ہے فصل بہار آنکھوں نے۔۔۔۔۔

میں اپنے دل پہ یہ الزام دھر نہیں سکتا
تباہ مجھ کو کیا سرمہ دار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

حدیث دل جو چھپانے کی لاکھ کوشش کی
مگر کیا ہے اسے آشکار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوئی تھی ماں کی زیارت بھی بعد برسوں کے
بہائے اشک بھی بے اختیار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

تمھاری راہ کو تک کر اے یوسف دوراں۔۔۔۔۔
کیا ہے صبح و مسا انتظار آنکھوں نے

دکھا کے خواب زلیخائے درہم و دینار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہے دل کو سدا بے قرار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

تمھاری ایک ہی تصویر ہے جو پاس مرے
اسی کو پیار کیا بار بار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔

یہ اشک اس لئے بہتے ہیں میری آنکھوں سے
کہ کی ہے خواہش دیدار یار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم ان گناہوں سے توبہ کروگے کب نوری
کئے گناہ ہیں جو بے شمار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد ابراہیم نوری

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:31
محمد ابراہیم نوری نوری
وہ جس سے پیار میں دیوانہ وار کرتا رہا
وہ پیٹھ پیچھے میرے مجھ پہ وار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جو شخص بندگیء کردگار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود کو دھر میں یوں ذی وقار کرتا رہا
 
عجیب شخص تھا وہ جب تلک رہا زندہ
خزاں کی رت میں بھی جشن بہار کرتا رہا
 
حصول جسکا میری دسترس سے باہر تھا
اسی کی چاہ دل بیقرار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
یہ میری جان ہے قربان اس غزل خواں پر
فراز دار پہ جو ذکر یار کرتا رہا۔۔۔۔
 
خیال کیا ہے تمھارا ہمارے بارے میں؟
سوال مجھ سے کوئی بار بار کرتا رہا
 
کسی نے اسکو بٹھایا نہیں سواری پر
مسافروں کو جو بندہ سوار کرتا رہا
 
دیار غیر میں رہ کر بھی تجھکو خاک وطن
ہمیشہ یاد، دل خاکسار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
 
نصیحتوں کی جسے خود بہت ضرورت تھی۔۔۔
وہ دوسروں کو نصیحت ہزار کرتا رہا
 
میری نگاہ میں منزل تھی روز اول سے
سو ضبط گردش لیل و نہار کرتا رہا
 
کسی کا مجھ سے یہ کہنا بھلا لگا مجھ کو
کہاں تھا تو؟ میں تیرا انتظار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
اسی پہ بارش نعمت مدام ہوتی رہی
جو شکر نعمت پروردگار کرتا رہا
 
جو شہر بھر میں نہ تھا اعتبار کے قابل
یہ دل اسہ پہ ہی کیوں اعتبار کرتا رہا؟
 
اسے گھمنڈ تھا اپنے امیر ہونے پر
سو میرے کے سامنے ڈالر شمار کرتا رہا
 
نکھرتا جائے گا فن "بزم استعارہ" کا 1
جو نوری چشم کرم "شہریار" کرتا رہا 2
 
 
1بزم استعارہ قم میں مقیم پاک و ہند شعراء کی ایک انجمن ہے
2 نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر جو قم میں مقیم ہیں
 
کلام:محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:29
محمد ابراہیم نوری نوری
Sunday, 21 June 2020، 01:23 AM

وہ مار دے گا اگر خنجر تبسم سے

مار دے گا اگر خنجر تبسم سے
تو گنگناوں گا کیسے غزل ترنم سے۔۔۔۔

سجی ہے تیرے لئے کائنات شعر و سخن
غزل یہ میری ہے منسوب جان من تم سے

قضا نماز محبت نہ ہو کسی صورت
اگر وضو نہیں ممکن تو پڑھ تیمم سے

تو با ہنر ہے کہ ہے بے ہنر میرے جیسا
یہ راز بستہ کھلے گا تیرے تکلم سے

شناوری کا ہنر ہی مجھے نہیں آتا
بچاوں کیسے تجھے بحر پر تلاطم سے؟

مرے لئے تو میرے گھر کا حوض کافی ہے
کروں گا کیا بھلا لوگو میں بحر و قلزم سے

یذید وقت کی نیندیں حرام ہوتی ہیں
حسین اب بھی ترے اجتماع چہلم سے

ستارہ اس کے مقدر کا جب نہیں چمکا
اٹھا ہے دشمنی کرنے وہ بزم اانجم سے

میرے سفینہء ہستی کے ناخدا تم ہو
یہ ڈگمگا نہیں سکتا کسی تلاطم سے

کسی کے ساتھ مجھے دیکھ کر کسی نے کہا
یہ بےوفائی کی امید تو نہ تھی تم سے

نماز عشق خدا کی ادائیگی کے لئے
زمیں پہ آئے گا کوئی فلک چہارم سے

یہ لفظ سنتے ہی محبوب یاد آتے ہیں
جبھی تو انس ہے اس دل کو لفظ پنجم سے

قدم قدم پہ جہالت اسے ستائے گی
جو دور ہو گیا تعلیم اور تعلم سے۔۔۔۔۔

مجھے ہے جلدی مجھے اور کہیں بھی جانا ہے
کہا یہ اس نے کہ میں کل ملوں گا پھر تم سے

اسی سماج کے افراد سنگ دل نکلے
سماج خالی تھا جو جذبہء ترحم سے

خوشی سے لوٹنا اپنے وطن کو اے نوری
ہوا جو فارغ تحصیل حوزہء قم سے

کلام: محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:23
محمد ابراہیم نوری نوری