نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۳۵ مطلب با موضوع «غزلیں» ثبت شده است

Saturday, 27 March 2021، 09:46 AM

گر مجھے تو ملا نہیں ہوتا

 

خمین میں کہی گئی فی البدیہہ غزل 

غزل

مجھ کو تو گر ملا نہیں ہوتا
تجھ سے ہرگز جدا نہیں ہوتا

صرف راتوں کو جاگ لینے سے
کوئی شاعر بڑا نہیں ہوتا

میں تو صحرا میں ہی بھٹک جاتا
گر ترا نقش پا نہیں ہوتا

ایک تم ہی تو یاد آتے ہو
تو اگر ناخدا نہیں ہوتا

 

سب سے پہلے تو یاد آتا ہے

"جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا" 

بادشاہت ہے اس کے زیر قدم
جو غلام انا نہیں ہوتا

دست معجزنما بھی لازم ہے
خود بہ خود معجزہ نہیں ہوتا

کیا ارادہ بے مجھ کو چھوڑنے کا
مجھ سےتو کیوں خفا نہیں ہوتا

جب ضرورت ہو ہم نوائی کی
کیوں کوئی ہم نوا نہیں ہوتا

ہو گیا ہوتا کب کا یہ ویراں
دل میں گر تو بسا نہیں ہوتا

ٹھوکریں کھائے بن کوئی نوری
صاحب_ تجربہ نہیں ہوتا..

محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 March 21 ، 09:46
محمد ابراہیم نوری نوری
Tuesday, 5 January 2021، 09:47 PM

نماز عشق جو برپا کرے گا

تازہ غزل
 
نماز عشق جو برپا کرے گا
وہ عاشق مر کے بھی زندہ رہے گا 
 
یہ دنیا ہے یہاں ہر دو قدم پر
سنبھلنے کے لئے گرنا پڑے گا
 
تواضع اس پہ لعنت بھیج دے گی
تکبر سے آکڑ کر جو چلے گا
 
اگر میں گر پڑونگا راستے میں
 تو کیا تو ہاتھ میرا تھام لے گا؟
 
بشر کا لفظ ہی بتلا رہا ہے
بشر دنیا کار شر کرے گا
مرے قاتل نے یہ سوچا ہی کب تھا
سناں پر بھی یہ سر اونچا رہے گا
 
رلائے گی اگر مجھکو یہ دنیا
تو  مجھ پر سب سے پہلے تو ہنسے گا
 
بدل دے گا وہی دنیا کا نقشہ
جو آغوش مصائب میں پلے گا
 
کسی کی بے گناہی کی گواہی
کسے معلوم تھا اک طفل دے گا
 
تو جس کے واسطے لکھتا ہے غزلیں
وہ نوری کیا تری غزلیں پڑھے گا؟
 
 
 
 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 January 21 ، 21:47
محمد ابراہیم نوری نوری
Friday, 14 August 2020، 02:37 AM

تو مرے پاس گر نہیں ہوتا

تازہ غزل 
 
تو مرے پاس گر نہیں ہوتا
تجھ کو کھونے کا ڈر نہیں ہوتا
 
عشق تو ایک بار ہوتا ہے
عشق بار دگر نہیں ہوتا
 
کیا سمجھتے وصال کی لذت؟
درد_ہجراں اگر نہیں ہوتا
 
ہم بھی جائیں ادھر خدا نہ کرے
ذکر تیرا جدھر نہیں ہوتا
 
جس پہ بھی اعتبار کرتا ہوں
بس وہی معتبر نہیں ہوتا
 
کس قدر کھوکھلا سا لگتا ہے
جس صدف میں گہر نہیں ہوتا
 
دو قدم ساتھ راہ چلنے سے
ہم قدم، ہمسفر نہیں ہوتا
 
ہاں اسے قتل گاہ کہتے ہیں
جس جگہ تن پہ سر نہیں ہوتا
 
میں سوالی ہوں ایک ہی در کا
اس لئے در بدر نہیں ہوتا
 
 فضل ولطف و کرم ہےسورج کا
ورنہ نوری قمر نہیں پوتا.۔۔
 
 
 
 
 
 
 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 14 August 20 ، 02:37
محمد ابراہیم نوری نوری
تازہ غزل
 
شناخت اپنی کچھ اس طرح کھو چکا ہوں میں
کہ دریا ہو کے سمندر میں ضم ہوا ہوں میں
 
میں خود کو آئینہ تمثال کہہ نہیں سکتا
پئے مفاد کبھی جھوٹ بولتا ہوں میں
 
مجھے وہ کل کی طرح پیار سےمنائے گا 
سو اس سے آج یہی سوچ کر خفا ہوں میں
 
بیان کس سے کروں اپنے خواب؟ اے یوسف
جو شہر زیست کے زنداں میں دیکھتا ہوں میں
 
زمانہ صاحب دولت کہے تو کیا حیرت
تمہارے وصل کی دولت جو پا چکا ہوں میں
 
زمانہ مجھ کو ترے نام سے پکارتا ہے
کہ جب سے تری محبت میں مبتلا ہوں میں
 
تو میرے عشق کو بھی طول عمر دے یا رب
یہ رزق تجھ سے اے رزاق مانگتا ہوں میں
 
بتاو کیا مجھے بیساکھیوں کی حاجت ہے؟
کہ اپنے پاوں پہ اچھی طرح کھڑا ہوں میں
 
اے مشکلو مری جانب یہ سوچ کر آنا
کہ مشکلات کی آغوش میں پلا ہوں میں
 
میں ڈھو رہا ہوں مسلسل غم حیات کا بوجھ
خوشی کے واسطے نوری ترس گیا ہوں میں
 
محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 26 July 20 ، 19:14
محمد ابراہیم نوری نوری

ہمیشہ درد کی دولت کو عام کرتے ہیں
ہم اہل عشق و محبت یہ کام کرتے ہیں

جو جان دے کے بچاتا ہے گوہر_عزت
ہم ایسے شخص کا صد احترام کرتے ہیں

میں ایسے شہر کو کیسے نہ قتل گاہ کہوں
جہاں پہ لوگ سدا قتل_ عام کرتے ہیں

جہان کن میں وہ مقتل بھی ہم نے دیکھا ہے
جہاں کٹے ہوئے سر بھی کلام کرتے ہیں

غریب شہر کو دیتے نہیں جواب_ سلام
امیر شہر کو جھک کر سلام کرتے ہیں

خدا پرست گھرانے کی یاد آتی ہے
جہاں بھی جب بھی ہم ذکر خیام کرتے ہیں

لبوں سے اپنے ہمیں تیری خوشبو آتی ہے
کہ جب بھی ورد زباں تیرا نام کرتے ہیں

یہ بات خاص ہے عاشق مزاج لوگوں میں
براہ چشم  بھی یہ نوش جام کرتے ہیں

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 25 July 20 ، 01:46
محمد ابراہیم نوری نوری