گر مجھے تو ملا نہیں ہوتا
خمین میں کہی گئی فی البدیہہ غزل
غزل
مجھ کو تو گر ملا نہیں ہوتا
تجھ سے ہرگز جدا نہیں ہوتا
صرف راتوں کو جاگ لینے سے
کوئی شاعر بڑا نہیں ہوتا
میں تو صحرا میں ہی بھٹک جاتا
گر ترا نقش پا نہیں ہوتا
ایک تم ہی تو یاد آتے ہو
تو اگر ناخدا نہیں ہوتا
سب سے پہلے تو یاد آتا ہے
"جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا"
بادشاہت ہے اس کے زیر قدم
جو غلام انا نہیں ہوتا
دست معجزنما بھی لازم ہے
خود بہ خود معجزہ نہیں ہوتا
کیا ارادہ بے مجھ کو چھوڑنے کا
مجھ سےتو کیوں خفا نہیں ہوتا
جب ضرورت ہو ہم نوائی کی
کیوں کوئی ہم نوا نہیں ہوتا
ہو گیا ہوتا کب کا یہ ویراں
دل میں گر تو بسا نہیں ہوتا
ٹھوکریں کھائے بن کوئی نوری
صاحب_ تجربہ نہیں ہوتا..
محمد ابراہیم نوری


