Tuesday, 5 January 2021، 09:47 PM
نماز عشق جو برپا کرے گا
تازہ غزل
نماز عشق جو برپا کرے گا
وہ عاشق مر کے بھی زندہ رہے گا
یہ دنیا ہے یہاں ہر دو قدم پر
سنبھلنے کے لئے گرنا پڑے گا
تواضع اس پہ لعنت بھیج دے گی
تکبر سے آکڑ کر جو چلے گا
اگر میں گر پڑونگا راستے میں
تو کیا تو ہاتھ میرا تھام لے گا؟
بشر کا لفظ ہی بتلا رہا ہے
بشر دنیا کار شر کرے گا
مرے قاتل نے یہ سوچا ہی کب تھا
سناں پر بھی یہ سر اونچا رہے گا
رلائے گی اگر مجھکو یہ دنیا
تو مجھ پر سب سے پہلے تو ہنسے گا
بدل دے گا وہی دنیا کا نقشہ
جو آغوش مصائب میں پلے گا
کسی کی بے گناہی کی گواہی
کسے معلوم تھا اک طفل دے گا
تو جس کے واسطے لکھتا ہے غزلیں
وہ نوری کیا تری غزلیں پڑھے گا؟
21/01/05