وہ مار دے گا اگر خنجر تبسم سے
مار دے گا اگر خنجر تبسم سے
تو گنگناوں گا کیسے غزل ترنم سے۔۔۔۔
سجی ہے تیرے لئے کائنات شعر و سخن
غزل یہ میری ہے منسوب جان من تم سے
قضا نماز محبت نہ ہو کسی صورت
اگر وضو نہیں ممکن تو پڑھ تیمم سے
تو با ہنر ہے کہ ہے بے ہنر میرے جیسا
یہ راز بستہ کھلے گا تیرے تکلم سے
شناوری کا ہنر ہی مجھے نہیں آتا
بچاوں کیسے تجھے بحر پر تلاطم سے؟
مرے لئے تو میرے گھر کا حوض کافی ہے
کروں گا کیا بھلا لوگو میں بحر و قلزم سے
یذید وقت کی نیندیں حرام ہوتی ہیں
حسین اب بھی ترے اجتماع چہلم سے
ستارہ اس کے مقدر کا جب نہیں چمکا
اٹھا ہے دشمنی کرنے وہ بزم اانجم سے
میرے سفینہء ہستی کے ناخدا تم ہو
یہ ڈگمگا نہیں سکتا کسی تلاطم سے
کسی کے ساتھ مجھے دیکھ کر کسی نے کہا
یہ بےوفائی کی امید تو نہ تھی تم سے
نماز عشق خدا کی ادائیگی کے لئے
زمیں پہ آئے گا کوئی فلک چہارم سے
یہ لفظ سنتے ہی محبوب یاد آتے ہیں
جبھی تو انس ہے اس دل کو لفظ پنجم سے
قدم قدم پہ جہالت اسے ستائے گی
جو دور ہو گیا تعلیم اور تعلم سے۔۔۔۔۔
مجھے ہے جلدی مجھے اور کہیں بھی جانا ہے
کہا یہ اس نے کہ میں کل ملوں گا پھر تم سے
اسی سماج کے افراد سنگ دل نکلے
سماج خالی تھا جو جذبہء ترحم سے
خوشی سے لوٹنا اپنے وطن کو اے نوری
ہوا جو فارغ تحصیل حوزہء قم سے
کلام: محمد ابراہیم نوری