Friday, 19 June 2020، 07:37 PM
غزل 15
غزل
میرے گلے میں کوئی بات کیوں اٹکتی ہے۔۔۔۔۔۔
کسی کی چشم غضب مجھکو جب بھی تکتی ہے
دکھائی دیتی ہے وہ اور بھی حسین و جمیل
کہ اس کے سر سے ردا خود سے جب سرکتی ہے
اسی امید پہ میں جی رہا ہوں آج تلک۔۔۔۔۔۔۔
کہ ایک دن میری قسمت بدل بھی سکتی ہے
جو کر ریے ہیں خوشامد زبان سے ہردم
پہ دل میں آتش نفرت بہت لپکتی ہے
ہو گر خلوص پہ مبنی محبتوں کا سفر
تو اسمیں جسم ہے تھکتا نہ روح تھکتی ہے
سبھی ہیں مہر بہ لب مرد کے بھٹکنے پر
تو شور کیسا اک عورت ذرا بھٹکتی ہے؟
سمیٹو زاد سفر کچھ تو آخرت کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری سانس کسی وقت رک بھی سکتی ہے
سکون قلب کی دولت تجھے ملے کیونکر
حسد کی آگ تیرے دل میں گر بھڑکتی ہے
اسی سے آج بھی سب دور ہونے لگتے ہیں
کسی سے تھوڑی سی غربت اگر چپکتی ہے
ضرور ہوتا ہے پیاسے کو آب کا دھوکہ
ذرا بھی ریتی اگر دشت میں چمکتی ہے
وہاں تو آیئنگے پتھر ضرور اے لوگو
کسی شجر پہ جہاں فصل تازہ پکتی ہے
اگر نہیں ہوا دیدار یار اے نوری
تمھاری آنکھوں سے پھرکیوں خوشی چھلکتی ہے
20/06/19