Monday, 15 June 2020، 07:06 PM
غزل 5
تازہ غزل
جس طرف تیرا نقش پا ہی نہیں
یہ قدم اس طرف اٹھا ہی نہیں
وہ چلا پے تلاش منزل میں
راستے کا جسے پتہ ہی نہیں
جو مخالف ہوا سے بجھ جائے
میرے نزدیک وہ دیا ہی نہیں
فکر حفظ وطن نہ ہو جسکو
وہ ملازم تو ہے سپاہی نہیں
جسکی تعبیر غیر ممکن ہو
خواب ایسا میں دیکھتا ہی نہیں
بغص آل نبی ہے ایسا مرض
جسکی دنیا میں کچھ دوا ہی نہیں
ایک جھوٹے نے سچ کہا اک دن
جب میں سچا تھا کچھ ملا ہی نہیں
رنج و غم کے بنا جو مل جائے
اس خوشی کا کوئی مزا ہی نہیں
پیش حق جس نے سر جھکایا تھا
اسکا سر پھر کہیں جھکا ہی نہیں
جسکی خاطر میں بن سنورتا ہوں
میری جانب وہ دیکھتا ہی نہیں
روٹی کپڑا،مکان سے ہٹ کر
نوری کچھ اور سوچتا ہی نہیں
محمد ابراہیم نوری۔
20/06/15