مدح کریمہء اہلیبیت ع
مہرباں مجھ پر نہایت کاتب تقدیر ہے ۔۔۔۔۔۔
شہر معصومہ میں مجھ سا صاحب تقصیر ہے
بنت کاظم کی ثنا کا حق ادا کیسے کروں
مدح معصومہ سے عاجز جب میری تفکیر ہے
متصل تیرے حرم سے ہے خیابان ارم۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اشارہ ہے کہ کل جنت تری جاگیر ہے
بالیقیں ہے زائر معصومہء قم جنتی۔۔۔۔
تیرے روضے کی فصیلوں پر یہی تحریر ہے
قوت_ گویائی ملتی ہے اسے،جو چوم لے
تیری چوکھٹ میں اے بی بی کیا عجب تاثیر ہے
دل میں آتا ہی نہیں میرے خیال معصیت
نام_معصومہ بیاض_ دل پہ جو تحریر ہے
بھائی کی الفت میں آئی از مدینہ تا بہ قم
کس قدر ہمدرد، شاہ طوس کی ہمشیر ہے۔۔۔
ہے وہی الفت رضا،اخت الرضا کے میاں
جو محبت درمیان_ زینب و شبیر ہے
منقبت اخت الرضا کی دم بدم لکھتے رہو
بہر تحصیل جناں آسان یہ تدبیر ہے
تیرے روضے کے قریں احساس نوری کو ہوا
سامنے جیسے ضریح مادر شبیر ہے
محمد ابراہیم نوری
مدح معصومہ قم سلام اللہ علیہا
عشرہء کرامت کی مناسب سے
حرم تمہارا ہے مینار_ نور، معصومہ ع
حرم تمہارا ہے صد رشک_ طور، معصومہ ع
ارداہ ہے کہ پڑھوں تیری منقبت لیکن
کہاں سے لاوں میں لحن_ زبور معصومہ ع
تمہاری شان میں اشعار لکھنا چاہتا ہوں
ہو مجھ پہ بارش_ رزق_ شعور معصومہ ع
ہنر ملا ہے ترے در سے شعرگوئی کا
یہ فن ہے بس مرا فخر و غرور، معصومہ ع
میں اسکو لفط کے پیکر میں ڈھال دوں کیسے
ترے حرم میں ملا جو سرور، معصومہ ع
جہاں قیام کیا تم نے شہر_ قم آکر
مکان بن گیا وہ بیت_ نور، معصومہ ع
ترے جوار میں احساس یہ ہوا ہی نہیں
ہم اپنی ماں سے اگرچہ ہیں دور، معصومہ ع
تمہارے عشق میں اشعار یہ کہے ہم نے
نہیں ہے خواہش حور و قصور، معصومہ ع
یہ بنت باب باب حوائج ہے مانگ کر دیکھو
تمہاری جھولی بھریں گی ضرور، معصومہ ع
دعائے قلب_ گنہگار رد نہیں کرتا
تمہارے روضے پہ رب_ غفور معصومہ ع
مری نگاہ میں وہ بخت کے سکندر ہیں
ترے حرم میں ہیں جنکی قبور معصومہ ع
تمہارے نقش_ قدم پر جو چل نہیں سکتے
صراط کیا وہ کریں گے عبور، معصومہ ع
سمجھ وہ پائیں گے کیسے تمہاری عظمت کو
دماغ و دل میں ہے جنکے فتور، معصومہ ع
یہ بات آپ میں اور مجھ میں مشترک ٹھہری
وطن سے آپ بھی اور میں بھی دور معصومہ ع
بدست ساقئ کوثر خدارا محشر میں
پلانا کوثری جام_ طہور، معصومہ ع
تمہاری خاک حرم آنکھ پر ملی جب سے
بڑھا ہے نوری کی انکھوں کا نور، معصومہ ع
محمد: ابراہیم نوری