Friday, 19 June 2020، 07:28 PM
غزل 14
غزل
جب بھی گیسو تیرے بکھرتے ہیں
مردہ جذبات پھر ابھرتے ہیں
ذکر تیرا ہے زینت محفل
اس لئے تیری بات کرتے ہیں
جو ستائے ہوئے ہیں الفت کے
گاہے جیتے ہیں گاہے مرتے ہیں
بھول جاتے ہیں تشنگی اپنی
دشت الفت سے جو گزرتے ہیں
اک جھلک تجھکو دیکھنے کے لئے
تیرے کوچے سے ہم گزرتے ہیں
وہ ہیں مکار، معتبر تو نہیں
اپنےوعدوں سے جو جو مکرتے ہیں
آپ کا نام جب بہادر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کیوں مشکلوں سے ڈرتے ہیں
اے طبیب بدن بتا تو سہی؟
روح کے زخم کیسے بھرتے ہیں۔۔۔
صاحب حسن خلق انساں ہی
غیر کے دل میں بھی اترتے ہیں
کیا ارداہ ہے جان لینے کا
آپ کیوں اس قدر سنورتے ہیں
محمد ابراہیم نوری