نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی
Monday, 12 July 2021، 02:51 PM

آستانے پر

تازہ غزل 
 
نہ کیوں  آوں مسلسل میں تمہارے آستانے پر 
سر افرازی یہاں ملتی ہے مجھکو سر جھکانے پر
 
سیے بیٹھے ہیں اپنے لب کو جو شہر ستمگر میں
انہیں کے سر سلامت ہیں ابھی تک ان کے شانے پر
 
سر شہرستم  ہم سب سے چھپ کر مسکراتے ہیں 
کہ پابندی نہ لگ جائے ہمارے مسکرانے پر
 
یہ دستار فضیلت میرے سر پر سج گئی جب سے
ہے سارا شہر ہی مائل مرے سر کو اڑانے پر
 
جو غافل تھے خدا سے دیکھ کر بس نا خداوں کو
پکار اٹھے خدا کو کشتیوں کے ڈگمگائے پر
 
اسے میں نے بنایا تھا چھپاکر چشم دنیا سے
تو پھر بجلی گرائی کس نے میرے آشیانے پر؟
 
ہماری خامشی پر ہم سے جو خوش باش رہتے تھے
وہ برہم ہوتے جاتے ہیں ہمارے لب ہلانے پر
 
چراغ رہگزر تا صبح  جلتا رہ گیا کیسے؟
ہوا مامور تھی شب بھر چراغوں کو بجھانے پر
 
 پرندوں نے جو کوشش کی قفس میں پھڑپھڑانے کی 
اٹھا صیاد اب انکے  کترنے یا جلانے پر
 
 نہیں ہے جسم کا دشمن وہ میرا دشمن جاں ہے 
 جبھی ہے روح میری تیر دشمن کے نشانے پر
 
نہ خوش ہو حلقہء احباب کی کثرت پہ اے نوری
بدل جائے گی قلت میں یہ کثرت وقت آنے پر
 
محمد ابراہیم نوری ۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 July 21 ، 14:51
محمد ابراہیم نوری نوری
Saturday, 29 May 2021، 10:43 PM

الف سے ی تک

غزل:الف سے ی تک 
 
یاد الفت کی کہانی ہے الف سے ی تک
یہ تجھے آج سنانی ہے الف سے ی تک
 
تجھکو اک بات بتانی ہے الف سے ی تک
دوسری بات چھپانی ہے الف سے ی تک
 
ترا چہرہ فقط اک چہرہ نہیں ہے مرے دوست
ایک دریائے معانی ہے الف سے ی تک 
 
دیکھ کر خانہ بدوشوں کو یہی سمجھا ہوں
زندگی نقل مکانی ہے الف سے ی تک
 
زندگی کیا ہے؟ جو پوچھا تو کہا آنکھوں نے
زندگی اشک فشانی ہے الف سے ی تک
 
کوئی ناول، کوئی تھیٹر ،کوئی افسانہ نہیں
زیست اک سچی کہانی ہے الف سے ی تک 
 
ماننا ہو گی مری بات بھی تجھ کو پیارے
تری ہر بات جو مانی ہے الف سے ی تک
 
تھک چکا ہوں میں محبت کی کتابیں پڑھ کر
اب انہیں آگ لگانی ہے الف سے ی تک
 
سن کے یہ تازہ غزل مجھ سے وہ اک دم بولا
یہ غزل تیری پرانی ہےالف سے ی تک
 
ریگ صحرا  پہ یہ لکھا ہے کسی نے نوری
زندگی تشنہ دہانی ہے الف سے ی تک 
 
محمد ابراہیم نوری 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 29 May 21 ، 22:43
محمد ابراہیم نوری نوری
Thursday, 1 April 2021، 12:12 PM

ظہور مہدی(محمد ابراہیم نوری)

ظہور مہدی 

کھلیں گے لب جب پئے بیان  ظہور مہدی
خفا تو ہونگے یہ دشمنان ظہور مہدی

نبوت مصطفی پہ جسکو یقین ہوگا
وہی اٹھائے  گا بس نشان ظہور مہدی

 ہے صاف ظاہر یہ بات حالات حاضرہ سے
بہت ہی نزدیک ہے زمان ظہور مہدی

 اس امتحاں کی ابھی سے تیاریاں کرو تم
بہت کٹھن  ہے یہ امتحان ظہور مہدی

مسافران رہ حقیقت ہیں در حقیقت 
یہ عاشقاں اور یہ راہیان ظہور مہدی

مجھے بلال امام مہدی کہو اے لوگو 
کہ روز دیتا ہوں میں اذان ظہور مہدی

وہ جنکی عقل و خرد پہ پردہ پڑا ہوا ہے 
وہی تو ٹھہرے ہیں منکران ظہور مہدی

ہیں نور چشم ولید کعبہ بھی جانشیں بھی
سو کعبہ کیونکر نہ ہو مکان ظہور مہدی

طہارت ذہن و دل ہے نوری بہت ضروری 
برائے تفہیم داستان ظہور مہدی

14 شعبان 1442 ھ ق

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 April 21 ، 12:12
محمد ابراہیم نوری نوری
Saturday, 27 March 2021، 09:49 AM

جاناں

تازہ غزل

میں نے مشکل میں صدا تجھ کو ہی دی ہے جاناں
سو مری آبرو دنیا میں بچی ہے جاناں

تجھ سے اظہار محبت جو کیا ہے میں نے
دشمن جاں مری یہ دنیا بنی ہے جاناں

اس لئے شوق سے آ بیٹھتا ہوں تیرے قریں
تری زلفوں کی بہت چھاوں گھنی ہے جاناں

تری یادیں تری باتیں تری خوشیاں ترے غم
دل کی دنیا انہیں رنگوں سے سجی ہے جاناں

ہجر اور وصل کے مابین کا لمحہ لمحہ
ترے عاشق کے لئے ایک صدی ہے جاناں

بات جو تو نے کبھی مجھ سے چھپانا چاہی
تری آنکھوں نے وہ چپ چاپ کہی ہے جاناں

اپنی سانسوں سے مجھے تیری مہک آتی ہے
قریہء جاں میں تیری خوشبو رچی ہے جاناں

اس کے بارے میں کبھی زحمت پرسش تو کرو
چشم نوری میں یہ جو موجود نمی ہے جاناں...


شاعر: محمد ابراہیم نوری 
 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 March 21 ، 09:49
محمد ابراہیم نوری نوری
Saturday, 27 March 2021، 01:16 AM

منقبت 2

ثاقب بھائی کے دیئے ہوئے مصرع پر فی البدیہہ کہی گئی ایک منقبت پیش خدمت ہے
 
منقبت 
 
زیب لب ذکر کبریا رکھئیے 
طاق لب پر دیا جلا رکھئیے 
 
بہر خوشنودئ حبیب خدا
آل احمد سے رابطہ رکھئیے 
 
ہوگی پھر گھر میں بارش رحمت
نام بیٹی کا فاطمہ رکھئیے
 
سر بلندی کی گر تمنا ہے
باب حیدر پہ سر جھکا رکھئیے
 
جس کو  بھی میثمی بنانا ہے
جام عشق علی پلا رکھئیے
 
آپ دل میں بسا کے عشق علی
دل کو کعبہ سا یوں بنا رکھئیے 
 
کر کے روشن چراغ مدح علی 
آگ دشمن کو بس لگا رکھئیے
 
آپ غدار،میں غدیری ہوں
آپ بس مجھ سے فاصلہ رکھئیے
 
آپ ہیں گر علی کے دیوانے
خود کو بہلول سا بنا رکھیے
 
آپ ہیں گر کنیز زینب ع کی 
اپنے سر پر ردا سجا رکھئیے 
 
 آگ دوزخ کی گر بجھانی ہے
شمع اشک عزا جلا رکھئیے
 
آمد و رفت فاطمہ ہوگی
اپنے گھر مجلس عزا رکھئیے 
 
حق و باطل میں فیصلے کے لئے
سامنے اپنے کربلا رکھئیے
 
ہوگا دیدار یوسف زہرا
نوری آنکھوں کو پارسا رکھئیے
 
محمد ابراہیم  نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 27 March 21 ، 01:16
محمد ابراہیم نوری نوری