ظہور مہدی
کھلیں گے لب جب پئے بیان ظہور مہدی
خفا تو ہونگے یہ دشمنان ظہور مہدی
نبوت مصطفی پہ جسکو یقین ہوگا
وہی اٹھائے گا بس نشان ظہور مہدی
ہے صاف ظاہر یہ بات حالات حاضرہ سے
بہت ہی نزدیک ہے زمان ظہور مہدی
اس امتحاں کی ابھی سے تیاریاں کرو تم
بہت کٹھن ہے یہ امتحان ظہور مہدی
مسافران رہ حقیقت ہیں در حقیقت
یہ عاشقاں اور یہ راہیان ظہور مہدی
مجھے بلال امام مہدی کہو اے لوگو
کہ روز دیتا ہوں میں اذان ظہور مہدی
وہ جنکی عقل و خرد پہ پردہ پڑا ہوا ہے
وہی تو ٹھہرے ہیں منکران ظہور مہدی
ہیں نور چشم ولید کعبہ بھی جانشیں بھی
سو کعبہ کیونکر نہ ہو مکان ظہور مہدی
طہارت ذہن و دل ہے نوری بہت ضروری
برائے تفہیم داستان ظہور مہدی
14 شعبان 1442 ھ ق
تازہ غزل
میں نے مشکل میں صدا تجھ کو ہی دی ہے جاناں
سو مری آبرو دنیا میں بچی ہے جاناں
تجھ سے اظہار محبت جو کیا ہے میں نے
دشمن جاں مری یہ دنیا بنی ہے جاناں
اس لئے شوق سے آ بیٹھتا ہوں تیرے قریں
تری زلفوں کی بہت چھاوں گھنی ہے جاناں
تری یادیں تری باتیں تری خوشیاں ترے غم
دل کی دنیا انہیں رنگوں سے سجی ہے جاناں
ہجر اور وصل کے مابین کا لمحہ لمحہ
ترے عاشق کے لئے ایک صدی ہے جاناں
بات جو تو نے کبھی مجھ سے چھپانا چاہی
تری آنکھوں نے وہ چپ چاپ کہی ہے جاناں
اپنی سانسوں سے مجھے تیری مہک آتی ہے
قریہء جاں میں تیری خوشبو رچی ہے جاناں
اس کے بارے میں کبھی زحمت پرسش تو کرو
چشم نوری میں یہ جو موجود نمی ہے جاناں...
شاعر: محمد ابراہیم نوری