سلام
کربلا کیا ہے؟ سنو میری زبانی ہائے
رنج و غم سے ہے یہ بھرپور کہانی ہائے
جانبِ آبِ رواں جب کبھی میں دیکھتا ہوں
آنکھیں کرتی ہیں مری اشک فشانی ہائے
شہہ کے سب دوست حبیب ایسے بہادر نکلے
عابس و جون ہوں یا مسلم و ہانی ہائے
ظلم کی زد پہ ہے اب خشک گلوئے اصغر
تیرِ سہ شعبہء ظالم کی گرانی ہائے
کیسے دے دوں تمہیں مرنے کی اجازت قاسم ؟
حسنِ سبز قبا کی ہو نشانی ہائے
تاکہ اسلام، محمد کا جواں رہ جائے
کی ہے قرباں علی اکبر کی جوانی ہائے
اے خدا چادر زینب کی حفاظت کرنا
کٹ چکے رن میں یدِ حیدرِ ثانی ہائے
رو کے کہتی ہے یہی آج بھی ہر موج فرات
ہائے شبیر تری تشنہء دہانی ہائے
یہی کہتا ہے جو سنتا ہے کلام نوری
چشم بد دور تری شعلہ بیانی ہائے
محمد ابراہیم نوری
۸ محرم الحرام ۱۴۴۴ ھ
۴:۳۰ بجے دن
مہ صیام
رہتا نہیں ہے صرف لبوں پر۔۔ مہ صیام
ہے متقی کے قلب کے اندر مہ۔۔ صیام
ماہ نزول مصحف داور۔۔ مہ صیام
وجہ رضائے خالق اکبر۔۔ مہ صیام
ظاہر یہ بات خطبہء شعبانیہ سے ہے
ہر ماہ سے ہے افضل و برتر۔۔ مہ صیام
ہوگا اسی میں غرق ہر اک لشکر گناہ
ہے رب کی رحمتوں کا سمندر۔۔ مہ صیام
پیدائش امام حسن سے زہے نصیب
چمکا ہے خوب تیرا مقدر۔۔ مہ صیام
مایوسیت کو چھوڑ دے بیمار معصیت
بخشش کا مغفرت کا ہے مصدر۔۔ مہ صیام
حیدر کے نور عین نے، زہرا کے چاند نے
تجھ کو کیا ہے اور منور۔۔ مہ صیام
کربل سے ربط بڑھتا ہے میرا ترے طفیل
آتے ہیں یاد مجھ کو بہتر۷۲۔۔ مہ صیام
محشر کی تیز دھوپ سے خائف نہیں ہوں میں
سایہ فگن ہے نوری کے سر پر۔۔ مہ صیام
محمد ابراہیم نوری
5 رمضان المبارک 1443
رات 1بجے قم حرم حضرت معصومہ س