کس قدر خوش بخت ہے دیکھو بقیعہ کی زمیں
ہیں یہاں مدفون دخت رحمت اللعالمیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی یاں مدفون ہیں حسنین اور زینب کی ماں
جو شہیدہ راضیہ ہیں اور خاتون جناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں وہ زہرا جنکے بابا ہیں شہنشاہ اممم
جنت الحسنین ہے جس ذات کے زیر قدم
فاطمہ زہرا کے پہلو میں ہیں خوابیدہ حسن
سر تا پا ہیں جو شبیہ و مظہر شاہ زمن
وہ حسن جن کا بہت مشہور دسترخوان ہے
جن سے باقی آج قرطاس و قلم کی شان ہے
ہے یہیں پر ہی، مقدس قبر فرزند حسین ع
ہیں جو محراب عبادت اور دعا کی زیب و زین
جنکو کہتے ہیں جہاں والے امام ساجدین
کہہ کے ہاتف نے پکارا جنکو کو زین العابدین
اور یہیں پر ہی ہے بے شک مدفن باقر امام
ساتھ جابر کےجنہیں بھیجا محمد نے سلام
وا کئے تھے آپ نے باب علوم مصطفی
آپ نے نے رکھی بنائے حوزہ ہای علمیہ
ہاں یہیں پر جعفر صادق کا بھی ہے آستاں
جنکی دانش کا ہے چرچا از زمیں تا آسماں
منہدم کر دی گئی یہ آٹھویں شوال کو
دکھ دیا پھر ظالموں نے مصطفی کی آل کو
واسطہ ان ہستیوں کا تجھ کو اے رب ودود
بس ملادے خاک میں اب ہستئ آل سعود
ان کے در سے پائی نوری نے متاع شاعری
جن کے دم سے آج تک زندہ ہے فقہ جعفری
شاعر: محمد ابراہیم نوری
آٹھ شوال 1441 شام 6:12
"نام ہے دنیا میں کتنا محترم شبیر کا"
ہے ثنا خواں صاحب لوح و قلم شبیر کا
اب قصیدہ ہو بشر سے کیا رقم شبیر کا
نام لیوا ہے جہاں میں ہر دھرم شبیر کا
نام ہے دنیا میں کتنا محترم شبیر کا
اس لئے بھی تذکرہ کرتے ہیں ہم شبیر کا
سنت خیر الوری ہے ذکر غم شبیر کا
میری اس تفکیر ناقص سے تو ممکن ہی نہیں
لکھ سر کاغذ قصیدہ اے قلم شبیر کا
چار ہجری تین شعبان معظم یاد رکھ
بیت زہرا میں ہوا اس دن جنم شبیر کا
آگیا ہے بن کے سجدوں کی بقا کا زمہ دار
اس لئے سر ہو گیا سجدے میں خم شبیر کا
عظمت شبیر دنیا کو بتانے کے لئے
خود ہی ناقہ بن گئے شاہ امم شبیر کا
قاسم جنت پدر تو ماں ہے خاتون جناں
اس کا مطلب ہے کہ کل باغ ارم شبیر کا
بات جب مصداق نفس مطمنہ کی چلی
نام آیا ہر زباں پر ایک دم شبیر کا
خواہش دیدار جنت دل میں اب ہے ہی نہیں
جب سے ان آنکھوں نے دیکھا ہے حرم شبیر کا
کیوں نہ خاک شفا کربوبلا کی سر زمیں
ہے زمیں کربلا میں خون ضم شبیر کا
ہم حسینی ہیں زمانے کو بتانے کے لئے
گھر کی چھت پر ہم لگاتے ہیں علم شبیر کا
رخ سے باطل کے سدا پردہ اٹھانے کے لئے
تذکرہ کرتے رہو تم دم بہ دم شبیر کا
دیکھ کر ظلم و ستم جو شخص بھی ساکت رہے
وہ تو پیرو ہی نہیں حق کی قسم شبیر کا
بس اسی لمحے میں ہی ناری سے نوری ہوگیا
حر نے جس دم دل سے چوما تھا قدم شبیر کا
کلام: محمد ابراہیم نوری
بصیرت کے دکھا کر منفرد جوہر خمینی نے. ...
کیا ہے حق پرستوں کے دلوں میں گھر خمینی نے...
اکھارا جڑ سے یوں نخل غرور و شر خمینی نے...
کہ کھولا انقلابیت کا اک دفتر خمینی نے...
براے انقلاب حق جوار بنت کاظم میں...
بنایا فیضیہ کو مرکز و محور خمینی نے...
شہنشاہی غلامی سے چھڑا کر ملک ایراں کو. ..
کیا ایران کو اسلام کا خوگر خمینی نے...
"نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری" ....
کیا بیدار امت کو یہی کہہ کر خمینی نے. .
الٹ کے رکھ دیا تختہ شہنشاہی حکومت کا...
مدد تسبیح و سجدہ گاہ سے لے کر خمینی نے...
بھلا کیوں کر نہ ڈالے دشمنوں کی آنکھ میں آنکھیں. ..
نکالا اہل ایراں کے دلوں سے ڈر خمینی نے...
مطیع شاہ کربل نے نہیں کی شاہ کی بیعت...
کہ رکھا تخت شاہی اپنی ٹھوکر پر خمینی نے...
اولی الابصار عالم کو شہیدوں کے سہارے سے...
دکھایا انفجار نور کا منظر خمینی نے۔۔
"نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں"
یہ ثابت کر دکھایا مومن اکبر خمینی نے۔۔
جو کہتے تھے کہ عالم کو سیاست ہی نہیں آتی....
لگائی مھر ان سب کی زبانوں پر خمینی نے...
صدا گونجی تھی "ان الباطل کان زھوقا" کی...
چلایا تھا رگ باطل پہ جب خنجر خمینی نے...
کیا آزاد امت کو غلامانہ تفکر سے...
کہ بخشا فطرس فکر و نظر کو پر خمینی نے...
غرور بادشاہت مٹ گیا بائیس بہمن کو...
کیا نافذ نظام مکتب جعفر خمینی نے...
زبان حال سے یہ کہہ رہا ہفتہء وحدت...
دیا پیغام وحدت کا سر منبر خمینی نے...
نہیں بھولے گا درس انقلاب حق کبھی ایراں...
کرایا یہ سبق ایران کو ازبر خمینی نے...
چراغ انقلاب حق جلا کر برسر ایراں..
طیور فکر شاہی کے جلائے پر خمینی نے...
یہ معمولی جھلک تھی انقلاب مہدئ دیں کی...
یہ بتلایا حقیقی منتظر بن کر خمینی نے..
بقائے انقلاب حق کی خاطر حق پسندوں کو...
علئ خامنہ ای سا دیا رہبر خمینی نے...
یقینا عالم روحانیت مقروض ہے انکا...
بہت اونچا کیا روحانیت کا سر خمینی نے..
.
سیاست کو جدا دیں سے نہیں ہونے دیا نوری....
کہا تھا،کر دکھایا یہ بھی شیر نر خمینی نے...
کلام:محمد ابراہیم نوری
کل جو ابھرا تھا سر_ ایراں ہلال_ انقلاب
بن گیا ہے آج وہ ماہ_ کمال_ انقلاب
خرمن_ باطل پہ گرنے لگتی ہیں تب بجلیاں
جب بھی کرتے ہیں بپا ہم جشن_ سال انقلاب
دی سر_ شہر_ ستم تو نے ولایت کی اذاں
سو پکاریں گے تجھے ہم سب بلال_ انقلاب
تیرے لب پر یہ جو دل آویز تل ہے بت شکن
بڑھ گیا ہے اس سے حسن_ خد و خال_ انقلاب
خواہش تعبیر، اپنے دل میں لے کر مٹ گئے
دیکھتے رہتے تھے جو خواب_ زوال_ انقلاب
انقلاب مہدوی سے متصل ہو جائے گا
یہ زبان_ حال سے کہتا ہے حال_ انقلاب
انقلاب کربلا کے بعد اب ایران میں
بادشاہت مٹ گئی زیر_ نعال_ انقلاب
مرکز علم و فقاہت،شہر قم میں بیٹھ کر
پی رہے ہیں آپ ہم جام_ زلال انقلاب
ہان ستم کی دھوپ آتی ہی نہیں میرے قریں
جب سے میرے سر پہ دیکھا ہے ظلال انقلاب
اے خمینی بت شکن کے جانشین با وفا
تیری صورت میں ہے سمٹا کل_ جمال_ انقلاب
درد فرقت دے گیا تو چودھویں خرادا کو
آج ہیں غمگین جب ہی تو رجال_ انقلاب
انقلابی ہو یہ دنیا کو بتانے کے لئے
ڈال رکھو دوش پر اے نوری شال_ انقلاب
شاعر محمد ابراہیم نوری