نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

"سارا کا فخر نازش مریم ہیں فاطمہ"
طرحی مشاعرہ 
حسینیہ امام صادق ع قم
منجانب طلاب ہند مقیم قم


الطاف ہم پہ تیرے جو پیہم ہیں فاطمہ
تیری ثنا میں لب کشا پھر ہم ہیں فاطمہ

بنت جناب مرسل اعظم ہیں فاطمہ
شہکار دست خالق عالم ہیں فاطمہ

اللہ رے کس درجہ مکرم ہیں فاطمہ
اسرار کبریا کی ہاں محرم ہیں فاطمہ

آمد ہے بنت شاہ رسولاں کی اس لئے
رقصاں بصد خوشی سبھی عالم فاطمہ ہیں

آئینہء خدیجہ بھی عکس رسول  بھی۔۔۔
ماں باپ کی صفات کا سنگم ہیں فاطمہ

ام ابیھا،ام آ ئمہ ہیں اس لئے۔۔۔۔
سارا کا فخر نازش مریم ہیں فاطمہ

آواز دے رہی ہے ہیں یہ قرآں کی آیتیں
وجہ قبول توبہء آدم ہیں فاطمہ۔۔۔۔۔۔۔

حق اور  دفاع امر لایت کے واسطے
عالی ہمم اور  عالی مصمم ہیں فاطمہ

حیران ہیں بہت بن مریم یہ دیکھ کر
زخم دل رسول کا مرہم ہیں فاطمہ

کھائیں علی نے نان جویں تیرے ہاتھ کی
بازو علی کے اس لئے محکم ہیں فاطمہ 

تشنہ لبئ شاہ شہیداں کی یاد میں
جاری ہماری آنکھوں سے زمزم ہیں فاطمہ

تیرے پسر کے پیچھے پڑھیں تاکہ وہ نماز
صدیوں سے منتظر بن مریم ہیں فاطمہ

جن کے ستم سے آنکھیں تری نم ہیں فاطمہ
 وہ سب کے سب غذائے جھنم ہیں فاطمہ
 
جب سے جوار فاطمہء قم نصیب ہے
ایسا لگا کہ تیرے قریں ہم ہیں فاطمہ

جس طرح شب قدر و الم لام میم ہیں
یوں ماورائے فکر دو عالم ہیں فاطمہ

بے شک وہ جنکےنوری معلم رسول پیں
وہ منفرد جہاں میں معلم ہیں فاطمہ

محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 19:03
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 07:02 PM

یہ کس کا شاہکار حدیث کسا بنی

 "یہ کس کا شاہکار حدیث کسا بنی"

طرحی مشاعرہ، بیت احتشام جونپوری
25 جمادی الثانی 2020 

 

حق کی کھلی پکار حدیث کسا بنی
گوش عدو پہ بار حدیث کسا بنی

 

یہ کس کا شاہکار حدیث کسا بنی
معصوم کا حصار حدیث کسا بنی

 

اہل ولا کے واسطے تسکین روح ہے
بہر عدو بخار حدیث کسا بنی

 

جسم و دل رسول معظم کے واسطے
صد باعث قرار حدیث کسا بنی

 

چشم محب آل کی ٹھنڈک کا یہ سبب
چشم عدو کا خار حدیث کسا بنی

 

افراد_ اہل_ بیت کی تشخیص کے لئے
اعلان_ کردگار حدیث کسا بنی

 

جب بھی ہوا شکار، غم روزگار کا
تب میری غمگسار حدیث کسا بنی

 

تھی کس کی ذات نقطہء پرکار پنجتن؟
تفسیر_ شاندار حدیث کسا بنی۔۔۔۔۔۔


محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 19:02
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:56 PM

نقش نگین خاتم سرور ہیں فاطمہ

شہ کار دست خالق اکبر ہیں فاطمہ 
نقش نگین خاتم  سرور ہیں  فاطمہ 

فرماں روائے کشور کوثر ہیں فاطمہ 
وجہ  بقائے  نسل  پیمبر  ہیں  فاطمہ 

بہر رسول  تحفہء داور ہیں  فاطمہ 
کامل،جواب طعنہء ابتر ہیں فاطمہ 

یوں جنت البقیع میں مضمر ہیں فاطمہ
جیسے صدف میں قیمتی گوہر ہیں فاطمہ
 
 طفیل خلقت کون و مکاں ہوئی
محبوب کبریا کی وہ دختر ہیں فاطمہ 

جسکا طواف صبح و مسا مصطفی کرے
عصمت کا وہ مطاف مطہر ہیں فاطمہ 

مثل بتول کوئی  فلک  مرتبت  نہیں
مختار  کائنات  کی  مادر ہیں  فاطمہ -

یا رب دریچے ذھن سخنور کے کھول دے
موضوع  مدح  فکر سخنور  ہیں  فاطمہ 

ہم  ہیں  سخنوران  در   آل   سیدہ
ہم لوگ رشک بخت سکندر ہیں فاطمہ 

کیونکر شراب خانوں کا ہم رخ کریں بھلا
ہم  عاشقان  ساقئ کوثر  ہیں  فاطمہ 

پڑھ کر قلم پہ سورہء کوثر جو دم کیا
اشعار منقبت جبھی بہتر ہیں فاطمہ 

ایران  تا  بہ  کشور   لبنان   متحد 
ہر سو پسر تمھارے مظفر ہیں فاطمہ 

اے قم کی فاطمہ ترے روضے کو دیکھکر
احساس یہ ہوا کہ یہیں پر ہیں فاطمہ 

قطرے ہیں جس کے مریم و سارہ و آسیہ 
فضل و حیا کا ایسا سمندر ہیں فاطمہ

ممکن نہیں کسی کی رسائی وہاں تلک
جس بحر معرفت کی شناور ہیں فاطمہ 

گیارہ امام حجت یزداں ہیں خلق پر
بہر  امام  حجت  داور  ہیں  فاطمہ 

مشتق ہیں جن سے گیارہ اماموں کا سلسلہ
بس وہ الہی منبع و مصدر ہیں فاطمہ 
 
حرف مقطعہ و شب قدر کی طرح.....
انسان کے شعور سے باہر ہیں فاطمہ ..

ذھرا کے در پہ آکے،یہ زھرہ نے کہہ دیا
عمران کے پسر کا مقدر ہیں فاطمہ ....

جائیں گے غاصبان فدک ،حشر میں کہاں
بانوئے کل عالم  محشر ہیں فاطمہ......

بہر  دفاع  امر  ولایت  اے  دوستو........
دربار  میں قبال ستمگر  ہیں  فاطمہ 

باغ فدک سے آج بھی آتی ہے یہ صدا
تنہا  نبی کی وارث اطہر ہیں فاطمہ 

کربوبلا کی جنگ نے ثابت یہ کر دیا...
لاکھوں پہ بھاری تیرے بھتر ہیں فاطمہ 

حیدر، حسن، حسین، علمدار کربلا .....
کنبے میں تیرے سب ہی غضنفر ہیں فاطمہ

بزم  کسا  ہو  یا کہ  ہو  روز مباھلہ........
کل عصمتوں کے واسطے محور ہیں فاطمہ 

راہ خدا میں جس نے بھرا گھر لٹا دیا
*نوری*وہ بے مثال مخیر ہیں فاطمہ 

طرحی مشاعرہ ،حسینیہ امام صادق قم المقدسه 2017 بمطابق 19 جمادی الثانی 

کلام:*محمدابراہیم نوری *

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:56
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:33 PM

غزل 4

غزل

 
وہ جس سے پیار میں دیوانہ وار کرتا رہا
وہ پیٹھ پیچھے میرے مجھ پہ وار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 جو شخص بندگیء کردگار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود کو دھر میں یوں ذی وقار کرتا رہا
 
 عجیب شخص تھا وہ جب تلک رہا زندہ
خزاں کی رت میں بھی جشن بہار کرتا رہا
 
حصول جسکا میری دسترس سے باہر تھا
اسی کی چاہ دل بیقرار  کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
یہ میری جان ہے قربان اس غزل خواں پر
فراز دار پہ جو ذکر یار کرتا رہا۔۔۔۔
 
خیال کیا ہے تمھارا ہمارے بارے میں؟
سوال مجھ سے کوئی بار بار کرتا رہا
 
کسی نے اسکو بٹھایا نہیں سواری پر
مسافروں کو جو بندہ سوار کرتا رہا
 
دیار غیر میں رہ کر بھی  تجھکو خاک وطن
  ہمیشہ یاد، دل خاکسار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
 
نصیحتوں کی جسے خود بہت ضرورت تھی۔۔۔
وہ دوسروں کو نصیحت ہزار کرتا رہا
 
میری نگاہ میں منزل تھی روز اول سے
سو ضبط گردش لیل و نہار کرتا رہا
 
کسی کا مجھ سے یہ کہنا بھلا لگا مجھ کو
کہاں تھا تو؟ میں تیرا انتظار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
اسی پہ بارش نعمت مدام ہوتی رہی
جو شکر نعمت پروردگار کرتا رہا
 
جو شہر بھر میں نہ تھا اعتبار کے قابل 
یہ دل اسی پہ ہی کیوں اعتبار کرتا رہا؟
 
اسے گھمنڈ تھا اپنے امیر ہونے پر
سو میرے کے سامنے ڈالر شمار کرتا رہا
 
نکھرتا جائے گا فن بزم استعارہ کا 1
جو نوری چشم کرم شہریار کرتا رہا
 
1بزم استعارہ قم میں مقیم پاک و ہند شعراء کی ایک انجمن ہے 
 
 کلام:محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:33
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:26 PM

غزل 3

تازہ غزل 

 
ذکر ہونٹوں پہ ترا صبح و مسا رکھا ہے
 تری چاہت کا دیا دل میں جلا رکھا ہے
 
میرے ہمدم نے گناہوں کو چھپا کر میرے
محترم مجھ کو زمانے میں بنا رکھا ہے
 
میں اسے غیر بھی اپنا بھی نہیں کہہ سکتا
مجھ کو اک شخص نے اس موڑ پہ لا رکھا ہے
 
تاکہ اک دوجے کی پہچان میں آسانی ہو
حق نے  انساں کو قبیلوں میں بٹا رکھا ہے
 
پھول کے ساتھ تو کانٹے بھی ہوا کرتے ہیں
اس حقیقت کو زمانے نے بھلا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
خود کشی اس نے یہی سوچ کر نہیں کی بس
ذمہ کنبے کا سر دوش اٹھا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ایک دن ایک آئے گا وہ خانہء دل کا مہماں
دل کا دروازہ اسی آس پہ وا رکھا ہے
l
اسکی آمد  کی خبر جب سے سنی ہے ہم نے
اپنی پلکوں کو سر راہ بچھا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
کون کھولے گا بھلا شہر میں شیشے کی دکاں
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں اٹھا رکھا ہے
 
زخم دل  ہم نے چھپانے کے لئے دنیا سے
اپنے ہونٹوں پہ تبسم کو سجا رکھا ہے
 
بارہا ہم نے یہی شہر ستم میں دیکھا
چہرہ مظلوم سا ظالم نے بنا رکھا ہے
 
گھونسلہ اپنا بچانے کے سانپوں سے۔۔
ایک چڑیا نے بلندی پہ بنا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
دربدر اس لئے دنیا میں نہیں ہوں لوگو۔۔۔۔۔۔ 
 میں نے سر ایک ہی چوکھٹ پہ جھکا رکھا ہے
 
اس قدر فکر معیشت ہے یہاں لوگوں کو
اب عبادت کو بھی اک پیشہ بنا رکھا ہے
 
ہے کسی ذات سے وابستہ وجود نوری
اس تعلق نے بکھرنے سے بچا رکھا ہے
 
شاعر محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:26
محمد ابراہیم نوری نوری