نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی
Tuesday, 16 June 2020، 01:03 PM

نام زہرا کا

طرحی مصرع:
ادب سے انبیاء لیتے ہیں نام زہرا کا

کلام: محمد ابراہیم نوری

قصیدہ کیا لکھے مجھ سا غلام زہرا کا۔۔
قصیدہ گو ہے رسول انام زہرا کا۔۔

ہے آشکار اسی سے مقام زہرا کا۔۔
ادب سے انبیاء لیتے ہیں نام زہرا کا۔۔

رقم قلم سے نہ ہوتا کوئی بھی حرف ثنا۔۔
نہ ہوتا ہم پہ جو لطف مدام زہرا کا۔۔

عطا ہو رزق سخن ہر گھڑی مجھے یا رب ۔۔
کہ ذکر کر سکوں میں صبح و شام زہرا کا۔۔

وہ دو جہاں میں علیہ السلام ہو جائے۔۔
وہ جس کے حق میں ہو آیا سلام زہرا کا۔۔

نگاہ اہل ادب میں وہ بے ادب ہوگا۔۔
بنا وضو کے جو لیتا ہے نام زہرا کا۔۔

بھلائے بیٹھی ہے امت رسول کی سنت۔۔
کیا نبی نے تھا صد احترام زہرا کا۔۔

فلک سے آتے تھے اہل فلک زمین تلک۔۔
انہیں پسند تھا بے حد طعام زہرا کا۔۔

وہ اجنبی کو نہ ہی اجنبی اسے دیکھے۔۔
برائے صنف نساء ہے پیام زہرا کا۔۔

وہ انقلاب خمینی ہو یا قیام حسین۔۔
حقیقتا ہے یہ دونوں قیام زہرا کا۔۔

اتر کے سورہء کوثر نے کر دیا ثابت۔۔
جواب طعنہء ابتر ہے نام زہرا کا۔۔

پئے امام زمانہ ہے اسوہء کامل۔۔
قسم خدا کی ہر اک نقش گام زہرا کا۔۔

امام بارہ پہ حجت ہیں بنت شاہ اممم۔۔
اسی سے جان لو عالی مقام زہرا کا۔۔

ہے خاک کربوبلا اس لئے بھی خاک شفا۔۔
کہ خون اس میں ہوا انضمام زہرا کا۔۔

بشکل قائم آل نبی زمانے میں۔۔
ہے جاری آج بھی فیضان عام زہرا کا۔۔

پئے حصول شفاعت یہ شرط ہے نوری۔۔
مثال حر تو بھی دامن، لے تھام زہرا کا۔۔

کلام محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 June 20 ، 13:03
محمد ابراہیم نوری نوری
Tuesday, 16 June 2020، 12:57 PM

زہرا

دختر شاہ مرسلیں زہرا
مظہر صادق و امیں زہرا

تیرے مدحت گروں میں ہے شامل
خود ہی خلاق عالمیں زہرا۔۔

تیری خاطر بنے ہیں رب کی قسم
یہ زماں اور یہ زمیں زہرا۔

اس سے راضی خدا نہیں ہوگا
جس سے راضی اگر نہیں زہرا

مادر محسن و حسین و حسن
ہوگی خود کس قدر حسیں زہرا۔

اور دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں
ہے فقط ام مومنیں زہرا

تیری اولاد سے خدا کی قسم
پر ہے ہر گوشہء زمیں زہرا۔۔

بنت کاظم کا دیکھ کر روضہ
یوں لگا ہے یہیں کہیں زہرا۔۔

علم_ آیندہ کا سمندر ہے
یہ ترا مصحف مبیں زہرا

شہہ کی مجلس جھاں بھی برپا پے۔۔
واں پہ جاتی ہے بالیقیں زہرا۔۔

تیری چوکھٹ پہ حاضری کے لئے۔۔
خم ہے نوری کی پھر جبیں زہرا۔۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 June 20 ، 12:57
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 07:16 PM

غزل 6

تازہ غزل

تصور میں پھر کوئی آنے لگا ہے
مجھے یاد، ماضی دلانے لگا ہے

تجھے دل سے میں نے بھلایا ہی کب تھا
جو تو اس قدر یاد آنے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

خوشی سے کبھی جاں چھرکتا تھا ہم پر
وہی ہم سے اب جاں چھڑانے لگا پے

کوئی قید زنداں سے آزاد ہوکر
قفس سے پرندے اڑانے لگا ہے

ہے گھر میں وہی اب نگاہوں کا مرکز
جو دو چار پیسے کمانے لگا ہے

مری شعر گوئی کا تھا جو مخالف
مری ہی غزل گنگنانے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوائے اجل شہر میں چل رہی ہے
سو سب کو خدا یاد آنے لگا ہے

بچھاتا تھا جو میری راہوں میں پلکیں
وہ رستے میں کانٹے بچھانے لگا ہے۔۔۔

کوئی اب  مرے گھر میں آتا نہیں ہے
کہ جب سے تو گھر آنے جانے لگا ہے

سر خیمہء جاں اجالے کی خاطر 
سنا ہے کوئی دل جلانے لگا ہے

ترے ساتھ گزرا جو اک پل خوشی کا
وہ لمحہ مجھے اب رلانے لگا ہے

اگر دیکھ لے کوئی تو کیا کہے گا
تو نوری یوں ہی مسکرانے لگا ہے


محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 19:16
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 07:11 PM

مدح امام حسن ع

مدح امام حسن مجتبی ع

مجھ پر یہ خاص چشمِ عنایت حسن کی ہے..
میرے لبوں پہ آج جو مدحت حسن کی ہے

خورشید روز حشر کی حدت کا خوف نئیں
سر پر ہمارے چادر رحمت حسن کی ہے

عظمت مہ صیام کی دو بالا کیوں نہ ہو
ماہ صیام میں جو ولادت حسن کی ہے

آئینہء صفات محمد حسن کی ذات
یعنی نبی کی نعت یہ مدحت حسن کی ہے

سچ ہے کہ ایسے شخص کا مجھول ہے نسب...
لوگو وہ جسکے دل میں عداوت حسن کی ہے....

مولا حسن بھی سیّدِ شُبّانِ خلد ہیں 
نہر لبن حسن کی ہے جنت حسن کی ہے....

کربوبلا میں حضرتِ قاسم کی شکْل میں..
اہلِ نظر یہ کہتے ہیں شرکت حسن ہے....

جس سے ملا  جہاں کو قرینہ حیات کا...
وہ مشعل حیات بھی  سیرت حسن کی ہے...  
  
آواز دے رہا ہے یہی سفرہء حسن
مشہورِ کائنات ضیافت حسن کی ہے

کرتے ہیں جس پہ شام وسحر رشک کل ملک
کچھ ایسی شاندار عبادت حسن کی ہے

میرا موالیان حسن سے ہے یہ سوال
پیش نگاہ کیا رہ طاعت حسن کی ہے؟

تیغِ قلم  سے وار  کیا میرِ  شام پر
اللہ رے کیا فہم و فراست حسن کی ہے  

سمجھو کہ اس نے اجر رسالت ادا کیا
نوری وہ جس کے دل میں مودت حسن کی ہے

کلام : محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 19:11
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 07:06 PM

غزل 5

تازہ غزل

جس طرف تیرا نقش پا ہی نہیں
یہ قدم اس طرف اٹھا ہی نہیں

وہ چلا پے تلاش منزل میں
راستے کا جسے پتہ ہی نہیں

جو مخالف ہوا سے بجھ جائے
میرے نزدیک وہ دیا ہی نہیں

فکر حفظ وطن نہ ہو جسکو
وہ ملازم تو  ہے سپاہی نہیں

جسکی تعبیر غیر ممکن ہو
خواب ایسا میں دیکھتا ہی نہیں

بغص آل نبی ہے ایسا مرض
جسکی دنیا میں کچھ دوا ہی نہیں

ایک جھوٹے نے سچ کہا اک دن
جب میں سچا تھا کچھ ملا ہی نہیں

رنج و غم کے بنا جو مل جائے
اس خوشی کا کوئی مزا ہی نہیں

پیش حق جس نے سر جھکایا تھا
 اسکا سر پھر کہیں جھکا ہی نہیں

جسکی خاطر میں بن سنورتا ہوں
میری جانب وہ دیکھتا ہی نہیں

 روٹی کپڑا،مکان سے ہٹ کر
نوری کچھ اور سوچتا ہی نہیں

محمد ابراہیم نوری۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 19:06
محمد ابراہیم نوری نوری