رہ محبت میں جو مرے گا
اسے صلہ منفرد ملے گا
شہید ہوگا قسم خدا کی
جو تیری الفت میں چل بسے گا
ہوائے نفرت کی سازشوں سے
چراغ_ الفت نہ بجھ سکے گا
جو ہوگا محروم، گوش دل سے
اذان الفت وہ کیا سنے گا
اسے مناتا رہوں گا تب تک
وہ مجھ سے جب تک نہیں منے گا
زمین دل پر اےبے وفا اب
ترا اجارہ نہیں چلے گا
اس آس پر ہم سفر پہ نکلے
کہ کوئی تو ہمسفر ملے گا
سیاہی شب کی بتا رہی ہے
اجالا دن میں بہت رہے گا
دیوں کی قسمت جدا جدا ہے
کوئی بجھے گا کوئی جلے گا
قفس میں پنچھی یہ سوچتا ہے
کہ دانہ بچوں کو کون دے گا
رہے گا محروم حق ہمیشہ
جو حق کی خاطر نہیں لڑے گا
جو آستینوں میں سانپ پالے
تو سانپ پہلے اسے ڈسے گا
بٹے گا ٹکڑوں میں گر قبیلہ؟
عدو کو ہی حوصلہ ملے گا
ستمگروں میں ہے وہ بھی شامل
خموشی سے جو ستم سہے گا
کرے گی دنیا اسے ملامت
کسی کے حق میں جو سچ کہے گا
تو جھوٹ بولے گا مجھ سے لیکن
یہ تیرا چہرہ تو سچ کہے گا
پڑھے گا جو آج دل لگا کر
وہ کل بڑا آدمی بنے گا
اجل کے دریا کا ذائقہ تو
یاں باری باری ہر اک چکھے گا
کبھی یہ سوچا تھا تو نے نوری
کہ تو بھی اک دن غزل کہے گا
محمد ابراہیم نوری
زندگی عالم غربت میں ہماری گزری۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کسی اور کی غربت نہیں دیکھی جاتی
عشق کے اور تقاضے بھی ہیں، وہ بھی دیکھو
صرف رعنائیء قامت نہیں دیکھی جاتی
یہ ہے بازار_ محبت اے زمانے والو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مال و جاں کی یہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی
پس_چہرہ کئی چہرے پیں چھپائے ہوئے لوگ
ہم سے چہروں کی یہ کثرت نہیں دیکھی جاتی
آگئے ہیں سگے رشتے بھی حسد کی زد میں
بھائی سے بھائی کی دولت نہیں دیکھی جاتی
وہ جو مشہور_ زمانہ ہیں مری نسبت سے۔۔۔۔۔۔۔
ان سے اب میری ہی شہرت نہیں دیکھی جاتی
ان سے امید_ سخا، کار_ عبث ہے نوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن سے اوروں کی سخاوت نہیں دیکھی جاتی
شاعر:محمد ابراہیم نوری