تصور میں پھر کوئی آنے لگا ہے
مجھے یاد، ماضی دلانے لگا ہے
تجھے دل سے میں نے بھلایا ہی کب تھا
جو تو اس قدر یاد آنے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشی سے کبھی جاں چھرکتا تھا ہم پر
وہی ہم سے اب جاں چھڑانے لگا پے
کوئی قید زنداں سے آزاد ہوکر
قفس سے پرندے اڑانے لگا ہے
ہے گھر میں وہی اب نگاہوں کا مرکز
جو دو چار پیسے کمانے لگا ہے
مری شعر گوئی کا تھا جو مخالف
مری ہی غزل گنگنانے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوائے اجل شہر میں چل رہی ہے
سو سب کو خدا یاد آنے لگا ہے
بچھاتا تھا جو میری راہوں میں پلکیں
وہ رستے میں کانٹے بچھانے لگا ہے۔۔۔
کوئی اب مرے گھر میں آتا نہیں ہے
کہ جب سے تو گھر آنے جانے لگا ہے
سر خیمہء جاں اجالے کی خاطر
سنا ہے کوئی دل جلانے لگا ہے
ترے ساتھ گزرا جو اک پل خوشی کا
وہ لمحہ مجھے اب رلانے لگا ہے
اگر دیکھ لے کوئی تو کیا کہے گا
تو نوری یوں ہی مسکرانے لگا ہے
محمد ابراہیم نوری
مجھ پر یہ خاص چشمِ عنایت حسن کی ہے..
میرے لبوں پہ آج جو مدحت حسن کی ہے
خورشید روز حشر کی حدت کا خوف نئیں
سر پر ہمارے چادر رحمت حسن کی ہے
عظمت مہ صیام کی دو بالا کیوں نہ ہو
ماہ صیام میں جو ولادت حسن کی ہے
آئینہء صفات محمد حسن کی ذات
یعنی نبی کی نعت یہ مدحت حسن کی ہے
سچ ہے کہ ایسے شخص کا مجھول ہے نسب...
لوگو وہ جسکے دل میں عداوت حسن کی ہے....
مولا حسن بھی سیّدِ شُبّانِ خلد ہیں
نہر لبن حسن کی ہے جنت حسن کی ہے....
کربوبلا میں حضرتِ قاسم کی شکْل میں..
اہلِ نظر یہ کہتے ہیں شرکت حسن ہے....
جس سے ملا جہاں کو قرینہ حیات کا...
وہ مشعل حیات بھی سیرت حسن کی ہے...
آواز دے رہا ہے یہی سفرہء حسن
مشہورِ کائنات ضیافت حسن کی ہے
کرتے ہیں جس پہ شام وسحر رشک کل ملک
کچھ ایسی شاندار عبادت حسن کی ہے
میرا موالیان حسن سے ہے یہ سوال
پیش نگاہ کیا رہ طاعت حسن کی ہے؟
تیغِ قلم سے وار کیا میرِ شام پر
اللہ رے کیا فہم و فراست حسن کی ہے
سمجھو کہ اس نے اجر رسالت ادا کیا
نوری وہ جس کے دل میں مودت حسن کی ہے
کلام : محمد ابراہیم نوری
جس طرف تیرا نقش پا ہی نہیں
یہ قدم اس طرف اٹھا ہی نہیں
وہ چلا پے تلاش منزل میں
راستے کا جسے پتہ ہی نہیں
جو مخالف ہوا سے بجھ جائے
میرے نزدیک وہ دیا ہی نہیں
فکر حفظ وطن نہ ہو جسکو
وہ ملازم تو ہے سپاہی نہیں
جسکی تعبیر غیر ممکن ہو
خواب ایسا میں دیکھتا ہی نہیں
بغص آل نبی ہے ایسا مرض
جسکی دنیا میں کچھ دوا ہی نہیں
ایک جھوٹے نے سچ کہا اک دن
جب میں سچا تھا کچھ ملا ہی نہیں
رنج و غم کے بنا جو مل جائے
اس خوشی کا کوئی مزا ہی نہیں
پیش حق جس نے سر جھکایا تھا
اسکا سر پھر کہیں جھکا ہی نہیں
جسکی خاطر میں بن سنورتا ہوں
میری جانب وہ دیکھتا ہی نہیں
روٹی کپڑا،مکان سے ہٹ کر
نوری کچھ اور سوچتا ہی نہیں
محمد ابراہیم نوری۔