نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی
Monday, 15 June 2020، 06:33 PM

غزل 4

غزل

 
وہ جس سے پیار میں دیوانہ وار کرتا رہا
وہ پیٹھ پیچھے میرے مجھ پہ وار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 جو شخص بندگیء کردگار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود کو دھر میں یوں ذی وقار کرتا رہا
 
 عجیب شخص تھا وہ جب تلک رہا زندہ
خزاں کی رت میں بھی جشن بہار کرتا رہا
 
حصول جسکا میری دسترس سے باہر تھا
اسی کی چاہ دل بیقرار  کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
یہ میری جان ہے قربان اس غزل خواں پر
فراز دار پہ جو ذکر یار کرتا رہا۔۔۔۔
 
خیال کیا ہے تمھارا ہمارے بارے میں؟
سوال مجھ سے کوئی بار بار کرتا رہا
 
کسی نے اسکو بٹھایا نہیں سواری پر
مسافروں کو جو بندہ سوار کرتا رہا
 
دیار غیر میں رہ کر بھی  تجھکو خاک وطن
  ہمیشہ یاد، دل خاکسار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
 
نصیحتوں کی جسے خود بہت ضرورت تھی۔۔۔
وہ دوسروں کو نصیحت ہزار کرتا رہا
 
میری نگاہ میں منزل تھی روز اول سے
سو ضبط گردش لیل و نہار کرتا رہا
 
کسی کا مجھ سے یہ کہنا بھلا لگا مجھ کو
کہاں تھا تو؟ میں تیرا انتظار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
اسی پہ بارش نعمت مدام ہوتی رہی
جو شکر نعمت پروردگار کرتا رہا
 
جو شہر بھر میں نہ تھا اعتبار کے قابل 
یہ دل اسی پہ ہی کیوں اعتبار کرتا رہا؟
 
اسے گھمنڈ تھا اپنے امیر ہونے پر
سو میرے کے سامنے ڈالر شمار کرتا رہا
 
نکھرتا جائے گا فن بزم استعارہ کا 1
جو نوری چشم کرم شہریار کرتا رہا
 
1بزم استعارہ قم میں مقیم پاک و ہند شعراء کی ایک انجمن ہے 
 
 کلام:محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:33
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:26 PM

غزل 3

تازہ غزل 

 
ذکر ہونٹوں پہ ترا صبح و مسا رکھا ہے
 تری چاہت کا دیا دل میں جلا رکھا ہے
 
میرے ہمدم نے گناہوں کو چھپا کر میرے
محترم مجھ کو زمانے میں بنا رکھا ہے
 
میں اسے غیر بھی اپنا بھی نہیں کہہ سکتا
مجھ کو اک شخص نے اس موڑ پہ لا رکھا ہے
 
تاکہ اک دوجے کی پہچان میں آسانی ہو
حق نے  انساں کو قبیلوں میں بٹا رکھا ہے
 
پھول کے ساتھ تو کانٹے بھی ہوا کرتے ہیں
اس حقیقت کو زمانے نے بھلا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
خود کشی اس نے یہی سوچ کر نہیں کی بس
ذمہ کنبے کا سر دوش اٹھا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ایک دن ایک آئے گا وہ خانہء دل کا مہماں
دل کا دروازہ اسی آس پہ وا رکھا ہے
l
اسکی آمد  کی خبر جب سے سنی ہے ہم نے
اپنی پلکوں کو سر راہ بچھا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
کون کھولے گا بھلا شہر میں شیشے کی دکاں
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں اٹھا رکھا ہے
 
زخم دل  ہم نے چھپانے کے لئے دنیا سے
اپنے ہونٹوں پہ تبسم کو سجا رکھا ہے
 
بارہا ہم نے یہی شہر ستم میں دیکھا
چہرہ مظلوم سا ظالم نے بنا رکھا ہے
 
گھونسلہ اپنا بچانے کے سانپوں سے۔۔
ایک چڑیا نے بلندی پہ بنا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
دربدر اس لئے دنیا میں نہیں ہوں لوگو۔۔۔۔۔۔ 
 میں نے سر ایک ہی چوکھٹ پہ جھکا رکھا ہے
 
اس قدر فکر معیشت ہے یہاں لوگوں کو
اب عبادت کو بھی اک پیشہ بنا رکھا ہے
 
ہے کسی ذات سے وابستہ وجود نوری
اس تعلق نے بکھرنے سے بچا رکھا ہے
 
شاعر محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:26
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:23 PM

غزل 2

تازہ غزل

رہ محبت میں جو مرے گا
اسے صلہ منفرد ملے گا

شہید  ہوگا  قسم خدا  کی 
جو تیری الفت میں چل بسے گا

ہوائے نفرت کی سازشوں سے
چراغ_ الفت نہ بجھ سکے گا

جو ہوگا محروم، گوش دل سے
اذان الفت وہ کیا سنے گا

اسے مناتا رہوں گا تب تک
وہ مجھ سے جب تک نہیں منے گا 

زمین دل پر  اےبے وفا اب
ترا اجارہ نہیں چلے گا

اس آس پر ہم سفر پہ نکلے
 کہ کوئی تو ہمسفر ملے گا

سیاہی شب کی بتا رہی ہے
اجالا دن میں بہت رہے گا

دیوں کی قسمت جدا جدا ہے
کوئی بجھے گا کوئی جلے گا

قفس میں پنچھی یہ سوچتا ہے
کہ دانہ بچوں کو کون دے گا

رہے گا محروم حق ہمیشہ
جو حق کی خاطر نہیں لڑے گا

جو آستینوں میں سانپ پالے
تو سانپ پہلے اسے ڈسے گا

بٹے گا ٹکڑوں میں گر قبیلہ؟
عدو کو ہی حوصلہ ملے گا

ستمگروں  میں ہے وہ بھی شامل
خموشی سے جو ستم سہے گا

کرے گی دنیا اسے ملامت
کسی کے حق میں جو سچ کہے گا

تو جھوٹ بولے گا مجھ سے لیکن
یہ تیرا چہرہ تو سچ کہے گا

پڑھے گا جو آج دل لگا کر
وہ کل بڑا آدمی بنے گا

اجل کے دریا کا ذائقہ تو
یاں باری باری ہر  اک چکھے گا

کبھی یہ سوچا تھا تو نے نوری
کہ تو بھی اک دن غزل کہے گا


محمد ابراہیم نوری

 

 

 

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:23
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:07 PM

غزل 1

تازہ غزل
صنف نسواں کی یہ ذلت نہیں دیکھی جاتی
ہم سے عصمت کی تجارت نہیں دیکھی جاتی

 

زندگی عالم غربت میں ہماری گزری۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کسی اور کی غربت نہیں دیکھی جاتی

 

عشق کے اور تقاضے بھی ہیں، وہ بھی دیکھو
صرف رعنائیء  قامت  نہیں  دیکھی  جاتی

 

یہ  ہے  بازار_ محبت اے زمانے والو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مال و جاں کی یہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی


 
پس_چہرہ کئی چہرے پیں چھپائے ہوئے لوگ
ہم سے چہروں کی یہ کثرت نہیں دیکھی جاتی

 

 آگئے ہیں سگے رشتے بھی حسد کی زد میں
بھائی سے بھائی کی دولت نہیں دیکھی جاتی

 

وہ جو مشہور_ زمانہ ہیں مری نسبت سے۔۔۔۔۔۔۔
ان سے اب میری ہی شہرت نہیں دیکھی جاتی

 

ان سے امید_ سخا، کار_ عبث ہے نوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن سے اوروں کی سخاوت نہیں دیکھی جاتی

شاعر:محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:07
محمد ابراہیم نوری نوری
Saturday, 13 June 2020، 05:57 PM

کربلائے عصر فلسطین

کربلائے عصر فلسطین 

 
سمجھو اسے مظلوم سے کچھ پیار نہیں ہے....
صیہونی مظالم سے جو بیزار نہیں ہے..
 
اک کربوبلا، ارض فلسطیں پہ بپا ہے...
تیار مگر لشکر انصار نہیں ہے...
 
جو ظلم و ستم دیکھ کے خاموش رہے گا...
انسان وہ کہلانے کا حقدار نہیں ہے...
 
کافی ہے یہی مردہ دلی کے لئے لوگو...
جس دل میں ذرا جذبۂ ایثار نہیں ہے...
 
جز رہبر ایران و بجز حزب الہی....
دنیا میں فلسطیں کا کوئی یار نہیں ہے...
 
سر اپنا اٹھا کر جیو اے مسلم دوراں...
گردن میں تیری،طوق گراں بار نہیں ہے...
 
آزادئ القدس کے نعرے ہیں لبوں پر.....
نصرت کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے....
 
افسوس صد افسوس کہ در دست مسلماں. ...
یکجہتی و وحدت کا ہی ہتھیار نہیں ہے....
 
ظالم کی حمایت میں ہیں اخبار ہزاروں...
مظلوم کا حامی کوئی اخبار نہیں ہے....
 
سر اپنا جھکاتا پھرے جو ظلم کے آگے۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ بھی ہو پر شہہ کا عزاداری نہیں ہے
 
 کر تیغ قلم سے سر ظالم پہ سدا وار
ظالم کا تو نوری جو قلمکار نہیں ہے...
 
کلام: محمد ابراہیم نوری 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 13 June 20 ، 17:57
محمد ابراہیم نوری نوری