Monday, 15 June 2020، 06:33 PM
غزل 4
غزل
وہ جس سے پیار میں دیوانہ وار کرتا رہا
وہ پیٹھ پیچھے میرے مجھ پہ وار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔
جو شخص بندگیء کردگار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود کو دھر میں یوں ذی وقار کرتا رہا
عجیب شخص تھا وہ جب تلک رہا زندہ
خزاں کی رت میں بھی جشن بہار کرتا رہا
حصول جسکا میری دسترس سے باہر تھا
اسی کی چاہ دل بیقرار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
یہ میری جان ہے قربان اس غزل خواں پر
فراز دار پہ جو ذکر یار کرتا رہا۔۔۔۔
خیال کیا ہے تمھارا ہمارے بارے میں؟
سوال مجھ سے کوئی بار بار کرتا رہا
کسی نے اسکو بٹھایا نہیں سواری پر
مسافروں کو جو بندہ سوار کرتا رہا
دیار غیر میں رہ کر بھی تجھکو خاک وطن
ہمیشہ یاد، دل خاکسار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
نصیحتوں کی جسے خود بہت ضرورت تھی۔۔۔
وہ دوسروں کو نصیحت ہزار کرتا رہا
میری نگاہ میں منزل تھی روز اول سے
سو ضبط گردش لیل و نہار کرتا رہا
کسی کا مجھ سے یہ کہنا بھلا لگا مجھ کو
کہاں تھا تو؟ میں تیرا انتظار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
اسی پہ بارش نعمت مدام ہوتی رہی
جو شکر نعمت پروردگار کرتا رہا
جو شہر بھر میں نہ تھا اعتبار کے قابل
یہ دل اسی پہ ہی کیوں اعتبار کرتا رہا؟
اسے گھمنڈ تھا اپنے امیر ہونے پر
سو میرے کے سامنے ڈالر شمار کرتا رہا
نکھرتا جائے گا فن بزم استعارہ کا 1
جو نوری چشم کرم شہریار کرتا رہا
1بزم استعارہ قم میں مقیم پاک و ہند شعراء کی ایک انجمن ہے
کلام:محمد ابراہیم نوری
20/06/15