نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۶۱ مطلب در ژوئن ۲۰۲۰ ثبت شده است

Monday, 15 June 2020، 06:56 PM

نقش نگین خاتم سرور ہیں فاطمہ

شہ کار دست خالق اکبر ہیں فاطمہ 
نقش نگین خاتم  سرور ہیں  فاطمہ 

فرماں روائے کشور کوثر ہیں فاطمہ 
وجہ  بقائے  نسل  پیمبر  ہیں  فاطمہ 

بہر رسول  تحفہء داور ہیں  فاطمہ 
کامل،جواب طعنہء ابتر ہیں فاطمہ 

یوں جنت البقیع میں مضمر ہیں فاطمہ
جیسے صدف میں قیمتی گوہر ہیں فاطمہ
 
 طفیل خلقت کون و مکاں ہوئی
محبوب کبریا کی وہ دختر ہیں فاطمہ 

جسکا طواف صبح و مسا مصطفی کرے
عصمت کا وہ مطاف مطہر ہیں فاطمہ 

مثل بتول کوئی  فلک  مرتبت  نہیں
مختار  کائنات  کی  مادر ہیں  فاطمہ -

یا رب دریچے ذھن سخنور کے کھول دے
موضوع  مدح  فکر سخنور  ہیں  فاطمہ 

ہم  ہیں  سخنوران  در   آل   سیدہ
ہم لوگ رشک بخت سکندر ہیں فاطمہ 

کیونکر شراب خانوں کا ہم رخ کریں بھلا
ہم  عاشقان  ساقئ کوثر  ہیں  فاطمہ 

پڑھ کر قلم پہ سورہء کوثر جو دم کیا
اشعار منقبت جبھی بہتر ہیں فاطمہ 

ایران  تا  بہ  کشور   لبنان   متحد 
ہر سو پسر تمھارے مظفر ہیں فاطمہ 

اے قم کی فاطمہ ترے روضے کو دیکھکر
احساس یہ ہوا کہ یہیں پر ہیں فاطمہ 

قطرے ہیں جس کے مریم و سارہ و آسیہ 
فضل و حیا کا ایسا سمندر ہیں فاطمہ

ممکن نہیں کسی کی رسائی وہاں تلک
جس بحر معرفت کی شناور ہیں فاطمہ 

گیارہ امام حجت یزداں ہیں خلق پر
بہر  امام  حجت  داور  ہیں  فاطمہ 

مشتق ہیں جن سے گیارہ اماموں کا سلسلہ
بس وہ الہی منبع و مصدر ہیں فاطمہ 
 
حرف مقطعہ و شب قدر کی طرح.....
انسان کے شعور سے باہر ہیں فاطمہ ..

ذھرا کے در پہ آکے،یہ زھرہ نے کہہ دیا
عمران کے پسر کا مقدر ہیں فاطمہ ....

جائیں گے غاصبان فدک ،حشر میں کہاں
بانوئے کل عالم  محشر ہیں فاطمہ......

بہر  دفاع  امر  ولایت  اے  دوستو........
دربار  میں قبال ستمگر  ہیں  فاطمہ 

باغ فدک سے آج بھی آتی ہے یہ صدا
تنہا  نبی کی وارث اطہر ہیں فاطمہ 

کربوبلا کی جنگ نے ثابت یہ کر دیا...
لاکھوں پہ بھاری تیرے بھتر ہیں فاطمہ 

حیدر، حسن، حسین، علمدار کربلا .....
کنبے میں تیرے سب ہی غضنفر ہیں فاطمہ

بزم  کسا  ہو  یا کہ  ہو  روز مباھلہ........
کل عصمتوں کے واسطے محور ہیں فاطمہ 

راہ خدا میں جس نے بھرا گھر لٹا دیا
*نوری*وہ بے مثال مخیر ہیں فاطمہ 

طرحی مشاعرہ ،حسینیہ امام صادق قم المقدسه 2017 بمطابق 19 جمادی الثانی 

کلام:*محمدابراہیم نوری *

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:56
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:33 PM

غزل 4

غزل

 
وہ جس سے پیار میں دیوانہ وار کرتا رہا
وہ پیٹھ پیچھے میرے مجھ پہ وار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 جو شخص بندگیء کردگار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود کو دھر میں یوں ذی وقار کرتا رہا
 
 عجیب شخص تھا وہ جب تلک رہا زندہ
خزاں کی رت میں بھی جشن بہار کرتا رہا
 
حصول جسکا میری دسترس سے باہر تھا
اسی کی چاہ دل بیقرار  کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
یہ میری جان ہے قربان اس غزل خواں پر
فراز دار پہ جو ذکر یار کرتا رہا۔۔۔۔
 
خیال کیا ہے تمھارا ہمارے بارے میں؟
سوال مجھ سے کوئی بار بار کرتا رہا
 
کسی نے اسکو بٹھایا نہیں سواری پر
مسافروں کو جو بندہ سوار کرتا رہا
 
دیار غیر میں رہ کر بھی  تجھکو خاک وطن
  ہمیشہ یاد، دل خاکسار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
 
نصیحتوں کی جسے خود بہت ضرورت تھی۔۔۔
وہ دوسروں کو نصیحت ہزار کرتا رہا
 
میری نگاہ میں منزل تھی روز اول سے
سو ضبط گردش لیل و نہار کرتا رہا
 
کسی کا مجھ سے یہ کہنا بھلا لگا مجھ کو
کہاں تھا تو؟ میں تیرا انتظار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
اسی پہ بارش نعمت مدام ہوتی رہی
جو شکر نعمت پروردگار کرتا رہا
 
جو شہر بھر میں نہ تھا اعتبار کے قابل 
یہ دل اسی پہ ہی کیوں اعتبار کرتا رہا؟
 
اسے گھمنڈ تھا اپنے امیر ہونے پر
سو میرے کے سامنے ڈالر شمار کرتا رہا
 
نکھرتا جائے گا فن بزم استعارہ کا 1
جو نوری چشم کرم شہریار کرتا رہا
 
1بزم استعارہ قم میں مقیم پاک و ہند شعراء کی ایک انجمن ہے 
 
 کلام:محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:33
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:26 PM

غزل 3

تازہ غزل 

 
ذکر ہونٹوں پہ ترا صبح و مسا رکھا ہے
 تری چاہت کا دیا دل میں جلا رکھا ہے
 
میرے ہمدم نے گناہوں کو چھپا کر میرے
محترم مجھ کو زمانے میں بنا رکھا ہے
 
میں اسے غیر بھی اپنا بھی نہیں کہہ سکتا
مجھ کو اک شخص نے اس موڑ پہ لا رکھا ہے
 
تاکہ اک دوجے کی پہچان میں آسانی ہو
حق نے  انساں کو قبیلوں میں بٹا رکھا ہے
 
پھول کے ساتھ تو کانٹے بھی ہوا کرتے ہیں
اس حقیقت کو زمانے نے بھلا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
خود کشی اس نے یہی سوچ کر نہیں کی بس
ذمہ کنبے کا سر دوش اٹھا رکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ایک دن ایک آئے گا وہ خانہء دل کا مہماں
دل کا دروازہ اسی آس پہ وا رکھا ہے
l
اسکی آمد  کی خبر جب سے سنی ہے ہم نے
اپنی پلکوں کو سر راہ بچھا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
کون کھولے گا بھلا شہر میں شیشے کی دکاں
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں اٹھا رکھا ہے
 
زخم دل  ہم نے چھپانے کے لئے دنیا سے
اپنے ہونٹوں پہ تبسم کو سجا رکھا ہے
 
بارہا ہم نے یہی شہر ستم میں دیکھا
چہرہ مظلوم سا ظالم نے بنا رکھا ہے
 
گھونسلہ اپنا بچانے کے سانپوں سے۔۔
ایک چڑیا نے بلندی پہ بنا رکھا ہے۔۔۔۔۔
 
دربدر اس لئے دنیا میں نہیں ہوں لوگو۔۔۔۔۔۔ 
 میں نے سر ایک ہی چوکھٹ پہ جھکا رکھا ہے
 
اس قدر فکر معیشت ہے یہاں لوگوں کو
اب عبادت کو بھی اک پیشہ بنا رکھا ہے
 
ہے کسی ذات سے وابستہ وجود نوری
اس تعلق نے بکھرنے سے بچا رکھا ہے
 
شاعر محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:26
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:23 PM

غزل 2

تازہ غزل

رہ محبت میں جو مرے گا
اسے صلہ منفرد ملے گا

شہید  ہوگا  قسم خدا  کی 
جو تیری الفت میں چل بسے گا

ہوائے نفرت کی سازشوں سے
چراغ_ الفت نہ بجھ سکے گا

جو ہوگا محروم، گوش دل سے
اذان الفت وہ کیا سنے گا

اسے مناتا رہوں گا تب تک
وہ مجھ سے جب تک نہیں منے گا 

زمین دل پر  اےبے وفا اب
ترا اجارہ نہیں چلے گا

اس آس پر ہم سفر پہ نکلے
 کہ کوئی تو ہمسفر ملے گا

سیاہی شب کی بتا رہی ہے
اجالا دن میں بہت رہے گا

دیوں کی قسمت جدا جدا ہے
کوئی بجھے گا کوئی جلے گا

قفس میں پنچھی یہ سوچتا ہے
کہ دانہ بچوں کو کون دے گا

رہے گا محروم حق ہمیشہ
جو حق کی خاطر نہیں لڑے گا

جو آستینوں میں سانپ پالے
تو سانپ پہلے اسے ڈسے گا

بٹے گا ٹکڑوں میں گر قبیلہ؟
عدو کو ہی حوصلہ ملے گا

ستمگروں  میں ہے وہ بھی شامل
خموشی سے جو ستم سہے گا

کرے گی دنیا اسے ملامت
کسی کے حق میں جو سچ کہے گا

تو جھوٹ بولے گا مجھ سے لیکن
یہ تیرا چہرہ تو سچ کہے گا

پڑھے گا جو آج دل لگا کر
وہ کل بڑا آدمی بنے گا

اجل کے دریا کا ذائقہ تو
یاں باری باری ہر  اک چکھے گا

کبھی یہ سوچا تھا تو نے نوری
کہ تو بھی اک دن غزل کہے گا


محمد ابراہیم نوری

 

 

 

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:23
محمد ابراہیم نوری نوری
Monday, 15 June 2020، 06:07 PM

غزل 1

تازہ غزل
صنف نسواں کی یہ ذلت نہیں دیکھی جاتی
ہم سے عصمت کی تجارت نہیں دیکھی جاتی

 

زندگی عالم غربت میں ہماری گزری۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کسی اور کی غربت نہیں دیکھی جاتی

 

عشق کے اور تقاضے بھی ہیں، وہ بھی دیکھو
صرف رعنائیء  قامت  نہیں  دیکھی  جاتی

 

یہ  ہے  بازار_ محبت اے زمانے والو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مال و جاں کی یہاں قیمت نہیں دیکھی جاتی


 
پس_چہرہ کئی چہرے پیں چھپائے ہوئے لوگ
ہم سے چہروں کی یہ کثرت نہیں دیکھی جاتی

 

 آگئے ہیں سگے رشتے بھی حسد کی زد میں
بھائی سے بھائی کی دولت نہیں دیکھی جاتی

 

وہ جو مشہور_ زمانہ ہیں مری نسبت سے۔۔۔۔۔۔۔
ان سے اب میری ہی شہرت نہیں دیکھی جاتی

 

ان سے امید_ سخا، کار_ عبث ہے نوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن سے اوروں کی سخاوت نہیں دیکھی جاتی

شاعر:محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 June 20 ، 18:07
محمد ابراہیم نوری نوری