نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۶۱ مطلب در ژوئن ۲۰۲۰ ثبت شده است

غزل"

کیا ہے کام یہ لیل و نہار آنکھوں نے
دکھایا جلوہ پروردگار آنکھوں نے

کبھی دکھایا ہے پژمردہ باغ فضل خزاں۔۔۔
کبھی دکھائی ہے فصل بہار آنکھوں نے۔۔۔۔۔

میں اپنے دل پہ یہ الزام دھر نہیں سکتا
تباہ مجھ کو کیا سرمہ دار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

حدیث دل جو چھپانے کی لاکھ کوشش کی
مگر کیا ہے اسے آشکار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوئی تھی ماں کی زیارت بھی بعد برسوں کے
بہائے اشک بھی بے اختیار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

تمھاری راہ کو تک کر اے یوسف دوراں۔۔۔۔۔
کیا ہے صبح و مسا انتظار آنکھوں نے

دکھا کے خواب زلیخائے درہم و دینار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہے دل کو سدا بے قرار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

تمھاری ایک ہی تصویر ہے جو پاس مرے
اسی کو پیار کیا بار بار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔

یہ اشک اس لئے بہتے ہیں میری آنکھوں سے
کہ کی ہے خواہش دیدار یار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم ان گناہوں سے توبہ کروگے کب نوری
کئے گناہ ہیں جو بے شمار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد ابراہیم نوری

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:31
محمد ابراہیم نوری نوری
وہ جس سے پیار میں دیوانہ وار کرتا رہا
وہ پیٹھ پیچھے میرے مجھ پہ وار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جو شخص بندگیء کردگار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود کو دھر میں یوں ذی وقار کرتا رہا
 
عجیب شخص تھا وہ جب تلک رہا زندہ
خزاں کی رت میں بھی جشن بہار کرتا رہا
 
حصول جسکا میری دسترس سے باہر تھا
اسی کی چاہ دل بیقرار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
یہ میری جان ہے قربان اس غزل خواں پر
فراز دار پہ جو ذکر یار کرتا رہا۔۔۔۔
 
خیال کیا ہے تمھارا ہمارے بارے میں؟
سوال مجھ سے کوئی بار بار کرتا رہا
 
کسی نے اسکو بٹھایا نہیں سواری پر
مسافروں کو جو بندہ سوار کرتا رہا
 
دیار غیر میں رہ کر بھی تجھکو خاک وطن
ہمیشہ یاد، دل خاکسار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔
 
نصیحتوں کی جسے خود بہت ضرورت تھی۔۔۔
وہ دوسروں کو نصیحت ہزار کرتا رہا
 
میری نگاہ میں منزل تھی روز اول سے
سو ضبط گردش لیل و نہار کرتا رہا
 
کسی کا مجھ سے یہ کہنا بھلا لگا مجھ کو
کہاں تھا تو؟ میں تیرا انتظار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔
 
اسی پہ بارش نعمت مدام ہوتی رہی
جو شکر نعمت پروردگار کرتا رہا
 
جو شہر بھر میں نہ تھا اعتبار کے قابل
یہ دل اسہ پہ ہی کیوں اعتبار کرتا رہا؟
 
اسے گھمنڈ تھا اپنے امیر ہونے پر
سو میرے کے سامنے ڈالر شمار کرتا رہا
 
نکھرتا جائے گا فن "بزم استعارہ" کا 1
جو نوری چشم کرم "شہریار" کرتا رہا 2
 
 
1بزم استعارہ قم میں مقیم پاک و ہند شعراء کی ایک انجمن ہے
2 نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر جو قم میں مقیم ہیں
 
کلام:محمد ابراہیم نوری
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:29
محمد ابراہیم نوری نوری
Sunday, 21 June 2020، 01:23 AM

وہ مار دے گا اگر خنجر تبسم سے

مار دے گا اگر خنجر تبسم سے
تو گنگناوں گا کیسے غزل ترنم سے۔۔۔۔

سجی ہے تیرے لئے کائنات شعر و سخن
غزل یہ میری ہے منسوب جان من تم سے

قضا نماز محبت نہ ہو کسی صورت
اگر وضو نہیں ممکن تو پڑھ تیمم سے

تو با ہنر ہے کہ ہے بے ہنر میرے جیسا
یہ راز بستہ کھلے گا تیرے تکلم سے

شناوری کا ہنر ہی مجھے نہیں آتا
بچاوں کیسے تجھے بحر پر تلاطم سے؟

مرے لئے تو میرے گھر کا حوض کافی ہے
کروں گا کیا بھلا لوگو میں بحر و قلزم سے

یذید وقت کی نیندیں حرام ہوتی ہیں
حسین اب بھی ترے اجتماع چہلم سے

ستارہ اس کے مقدر کا جب نہیں چمکا
اٹھا ہے دشمنی کرنے وہ بزم اانجم سے

میرے سفینہء ہستی کے ناخدا تم ہو
یہ ڈگمگا نہیں سکتا کسی تلاطم سے

کسی کے ساتھ مجھے دیکھ کر کسی نے کہا
یہ بےوفائی کی امید تو نہ تھی تم سے

نماز عشق خدا کی ادائیگی کے لئے
زمیں پہ آئے گا کوئی فلک چہارم سے

یہ لفظ سنتے ہی محبوب یاد آتے ہیں
جبھی تو انس ہے اس دل کو لفظ پنجم سے

قدم قدم پہ جہالت اسے ستائے گی
جو دور ہو گیا تعلیم اور تعلم سے۔۔۔۔۔

مجھے ہے جلدی مجھے اور کہیں بھی جانا ہے
کہا یہ اس نے کہ میں کل ملوں گا پھر تم سے

اسی سماج کے افراد سنگ دل نکلے
سماج خالی تھا جو جذبہء ترحم سے

خوشی سے لوٹنا اپنے وطن کو اے نوری
ہوا جو فارغ تحصیل حوزہء قم سے

کلام: محمد ابراہیم نوری

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:23
محمد ابراہیم نوری نوری

وقت مشکل ہے پہ یہ وقت گزر جائے گا
یار و اغیار کا ہاں فیصلہ کر جائے گا

ٹھوکریں گردش ایام کی گر کھائے گا
پیار کا بھوت ترے سر سے اتر جائے گ

کب تلک ضبط کرے گا بھلا سورج کی تپش
پھول تو پھول ہے اک روز بکھر جائے گا

مدتوں بعد بھی زندہ ہے بچھڑ کر مجھ سے
بن میرے اس نے کہا تھا کہ وہ مر جائے گا

شدت عشق و محبت میں کمی آئے گی
یار کی دید کو تو روز اگر جائے گا

رکھ کے آداب دعا پیش نظر اے داعی
تو دعا کر ترا دامن ابھی بھر جائے گا

آئے گا ایسا برا وقت بھی،سوچا ہی تھا
بیچنے اپنا ہنر اہل ہنر جائے گا؟

جانے گھر والوں کو کس درجہ مسرت ہوگی
صںبح کا بھولا اگر شام کو گھر جائے گا

تجھ کو ہو جائے گی دنیا کی حقیقت معلوم
جب جنازہ ترا مرقد میں اتر جائے گا

زندگی میں تو پلٹ کر اسے دیکھا ہی نہیں
بہر تدفین مگر سارا نگر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشق محبوب کی لذت ہو میسر جسکو
جانب دار بھی بے بے خوفو خطر جائےگا

فیصلہ ہوگا عدالت میں اسی کے حق میں
بہر قاضی جو لئے کیسہء زر جائے گا

دور سے پانی لگے گا پہ نہ ہوگا پانی
تشنہ لب دشت میں جس سمت بھی گر جائے گا

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:21
محمد ابراہیم نوری نوری
مری بستی میں جتنی لڑکیاں ہیں
خدا کا شکر پردے والیاں ہیں
 
میں انساں ہوں فرشتہ تو نہیں ہوں
سو مجھ میں بھی یقینا خامیاں ہیں
 
تمھارے بن میری حالت ہے ایسی
بنا پانی کے جیسی کشتیاں ہیں
 
چلیں سوچیں ذرا اس مسئلے پر
ہمارے درمیاں کیوں دوریاں ہیں
 
میں خود کو کیوں بھلا سمجھوں گا تنہا
مری ہمدم مری تنہائیاں ہیں۔۔۔
 
کبھی لوگوں کے چہرے بھی پڑھا کر
رقم چہروں پہ بھی سچائیاں ہیں
 
ہمارے اپنے بھی ہیں اجنبی سے
ہماری جب سے خالی جھولیاں ہیں
 
ہمارے دیس میں معیار عزت
نہیں انسانیت،بس کرسیاں ہیں
 
مری والے بھی آتے ہیں یہاں پر
کہ بلتستاں میں ایسی وادیاں ہیں
 
خیانت مت کرو خاک وطن سے
کہ تیرے تن پہ خاکی وردیاں ہیں
 
چھپی ہے ان میں ظالم کی تباہی
لب مظلوم پر جو سسکیان ہیں
 
اسے کہتے ہیں پھولوں سے محبت
ہمییشہ گلستاں میں تتلیاں ہیں
 
نہ گھورو راہ چلتی لڑکیوں کو۔۔۔۔۔۔
تمہارے گھر میں بھی تو بیٹیاں ہیں
 
وہ جن کو دیکھ کر رب یاد آئے
جہاں میں ایسی بھی کچھ ہستیاں ہیں
 
اٹھا لائے تو ہو تم سیپیوں کو
مزین موتیوں سےسیپیاں ہیں؟
 
نہ گھبرانا اے نوری مشکلوں سے۔۔۔
کہ مشکل میں چھپی آسانیاں ہیں۔
 
محمد ابراہیم نوری
 
 
غزل 4
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 June 20 ، 01:18
محمد ابراہیم نوری نوری