نام ہے دنیا میں کتنا محترم شبیر کا
طرحی مشاعرہ حسینیہ امام صادق قم
"نام ہے دنیا میں کتنا محترم شبیر کا"
ہے ثنا خواں صاحب لوح و قلم شبیر کا
اب قصیدہ ہو بشر سے کیا رقم شبیر کا
نام لیوا ہے جہاں میں ہر دھرم شبیر کا
نام ہے دنیا میں کتنا محترم شبیر کا
اس لئے بھی تذکرہ کرتے ہیں ہم شبیر کا
سنت خیر الوری ہے ذکر غم شبیر کا
میری اس تفکیر ناقص سے تو ممکن ہی نہیں
لکھ سر کاغذ قصیدہ اے قلم شبیر کا
چار ہجری تین شعبان معظم یاد رکھ
بیت زہرا میں ہوا اس دن جنم شبیر کا
آگیا ہے بن کے سجدوں کی بقا کا زمہ دار
اس لئے سر ہو گیا سجدے میں خم شبیر کا
عظمت شبیر دنیا کو بتانے کے لئے
خود ہی ناقہ بن گئے شاہ امم شبیر کا
قاسم جنت پدر تو ماں ہے خاتون جناں
اس کا مطلب ہے کہ کل باغ ارم شبیر کا
بات جب مصداق نفس مطمنہ کی چلی
نام آیا ہر زباں پر ایک دم شبیر کا
خواہش دیدار جنت دل میں اب ہے ہی نہیں
جب سے ان آنکھوں نے دیکھا ہے حرم شبیر کا
کیوں نہ خاک شفا کربوبلا کی سر زمیں
ہے زمیں کربلا میں خون ضم شبیر کا
ہم حسینی ہیں زمانے کو بتانے کے لئے
گھر کی چھت پر ہم لگاتے ہیں علم شبیر کا
رخ سے باطل کے سدا پردہ اٹھانے کے لئے
تذکرہ کرتے رہو تم دم بہ دم شبیر کا
دیکھ کر ظلم و ستم جو شخص بھی ساکت رہے
وہ تو پیرو ہی نہیں حق کی قسم شبیر کا
بس اسی لمحے میں ہی ناری سے نوری ہوگیا
حر نے جس دم دل سے چوما تھا قدم شبیر کا
کلام: محمد ابراہیم نوری