نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی
Tuesday, 16 June 2020، 01:28 PM

کچھ غزلیں

 

میری کچھ غزلیں :۔

غزل1ہ

جسکی خاطر سجائی محفل ہے
کیوں رسائی اسی کی مشکل ہے؟

زندگی کیا ہے؟ میں بتاتا ہوں
ایک مجموعہء مسائل ہے۔۔۔۔۔

اسکو بھی تو سزا ملے کوئی
جو میری خواہشوں کا قاتل ہے

پہلے وہ مجھ پہ جاں چھڑکتا تھا
اب میرے دشمنوں میں شامل ہے

دست قاتل بھلا نہ کیوں لرزیں
تیر کا رخ جو سوئے بسمل ہے

رہتی دنیا تلک یہ کربوبلا
حق و باطل میں حد فاصل ہے

ہونے والا ہے کچھ برا شاید
آج کل مضطرب میرا دل ہے

باپ بولا ادا کروں کیسے
اس قدر پانی گیس کا بل ہے

وہ فصیل انا گرانی ہے
جو ہمارے میان حائل ہے

ایک دن غم تو ایک روز خوشی
بس یہی زندگی کا حاصل ہے

آج کے دور میں جسے دیکھو
مقصد زندگی سے غافل ہے

کیسے کھاتے ہو شوق سے نوری
خالی فلفل سے یہ فلافل ہے(1)

(1)فلفل فارسی میں مرچ کو کہتے ہیں
اور فلافل برگر وغیرہ کو

غزل 2

جو زندگی میں کبھی جستجو نہیں کرتا
میرا خدا بھی اسے سرخ رو نہیں کرتا

یہ میرا دل تو دھڑکتا ہے ظاہرا لیکن۔۔۔۔۔
کسی بھی شے کی یہ دل آرزو نہیں کرتا

کسی کے قرب نے مجھ کو بنا دیا شاعر
وگرنہ شاعری میں تو کبھو نہیں کرتا

کسی نے دیکھ لیا تو کہے گا دیوانہ
جو اپنا چاک گریباں رفو نہیں کرتا

جو جیسا ہے اسے ویسا ہی یہ دکھاتا ہے
یہ آئینہ تو کبھی بھی غلو نہیں کرتا

میں ایسے شخص کی آنکھوں کو پاک سمجھوں گا
نظر جو سوئے زن_ خوب رو نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقیر ہوں تیرے در کا تجھے صدا دی ہے
اے جان جاں میں صدا کو بہ کو نہیں کرتا

وہ جس نے بیچ کے زیور تجھے پڑھایا تھا
عجب ہے فون تک اس ماں کو تو نہیں کرتا

ہمارا عشق ابھی حال احتضار میں ہے
تو پھر اسے کوئی کیوں قبلہ رو نہیں کرتا

مہک رہی ہیں فضائیں گلوں کی خوشبو سے
چمن میں رہ کے تو احساس بو نہیں کرتا؟

زمین شعر ہو بنجر تو اس زمیں پہ کبھی
درخت شعر و سخن کا نمو نہیں کرتا

کتاب عشق کو چھونے کے واسطے نوری
وضو ضروری ہے تو کیوں وضو نہیں کرتا

کلام محمد ابراہیم نوری

غزل 3

کس قدر خوش نصیب ہوتے ہیں
جو شریف و نجیب ہوتے ہیں

کیا نہیں ہوتے قابل_ عزت؟
دہر میں جو غریب ہوتے ہیں

بے خرد دوستوں سے تو بہتر
ہاں رقیب_ لبیب ہوتے ہیں

در پہ اب سائلوں کی دستک سے
صد پریشاں مجیب ہوتے ہیں

جان لیتے ہیں جو مریضوں کی
کیا وہ قاتل طبیب ہوتے ہیں؟

کیوں محبت کی راہ میں ہی سدا؟
غم ہی پیہم نصیب ہوتے ہیں۔۔۔۔

لوگ بس ان کو تکتے رہتے ہیں
ظاہرا جو شبیب ہوتے ہیں

سرفرازی انہیں کو ملتی ہے
وہ جواہل_ شکیب ہوتے ہیں

دور رہ کر بھی ظاہرا کچھ لوگ
دل کے بے حد قریب ہوتے ہیں

گلستان_ ادب میں اے نوری
نغمہ خواں بس ادیب ہوتے ہیں

محمد ابراہیم نوری

مری بستی میں جتنی لڑکیاں ہیں
خدا کا شکر پردے والیاں ہیں

میں انساں ہوں فرشتہ تو نہیں ہوں
سو مجھ میں بھی یقینا خامیاں ہیں

تمھارے بن میری حالت ہے ایسی
بنا پانی کے جیسی کشتیاں ہیں

چلیں سوچیں ذرا اس مسئلے پر
ہمارے درمیاں کیوں دوریاں ہیں

میں خود کو کیوں بھلا سمجھوں گا تنہا
مری ہمدم مری تنہائیاں ہیں۔۔۔

کبھی لوگوں کے چہرے بھی پڑھا کر
رقم چہروں پہ بھی سچائیاں ہیں

ہمارے اپنے بھی ہیں اجنبی سے
ہماری جب سے خالی جھولیاں ہیں

ہمارے دیس میں معیار عزت
نہیں انسانیت،بس کرسیاں ہیں

مری والے بھی آتے ہیں یہاں پر
کہ بلتستاں میں ایسی وادیاں ہیں

خیانت مت کرو خاک وطن سے
کہ تیرے تن پہ خاکی وردیاں ہیں

چھپی ہے ان میں ظالم کی تباہی
لب مظلوم پر جو سسکیان ہیں

اسے کہتے ہیں پھولوں سے محبت
ہمییشہ گلستاں میں تتلیاں ہیں

نہ گھورو راہ چلتی لڑکیوں کو۔۔۔۔۔۔
تمہارے گھر میں بھی تو بیٹیاں ہیں

وہ جن کو دیکھ کر رب یاد آئے
جہاں میں ایسی بھی کچھ ہستیاں ہیں

اٹھا لائے تو ہو تم سیپیوں کو
مزین موتیوں سےسیپیاں ہیں؟

نہ گھبرانا اے نوری مشکلوں سے۔۔۔
کہ مشکل میں چھپی آسانیاں ہیں۔

محمد ابراہیم نوری
 

غزل 4

وقت مشکل ہے پہ یہ وقت گزر جائے گا
یار و اغیار کا ہاں فیصلہ کر جائے گا

ٹھوکریں گردش ایام کی گر کھائے گا
پیار کا بھوت ترے سر سے اتر جائے گ

کب تلک ضبط کرے گا بھلا سورج کی تپش
پھول تو پھول ہے اک روز بکھر جائے گا

مدتوں بعد بھی زندہ ہے بچھڑ کر مجھ سے
بن میرے اس نے کہا تھا کہ وہ مر جائے گا

شدت عشق و محبت میں کمی آئے گی
یار کی دید کو تو روز اگر جائے گا

رکھ کے آداب دعا پیش نظر اے داعی
تو دعا کر ترا دامن ابھی بھر جائے گا

آئے گا ایسا برا وقت بھی،سوچا ہی تھا
بیچنے اپنا ہنر اہل ہنر جائے گا؟

جانے گھر والوں کو کس درجہ مسرت ہوگی
صںبح کا بھولا اگر شام کو گھر جائے گا

تجھ کو ہو جائے گی دنیا کی حقیقت معلوم
جب جنازہ ترا مرقد میں اتر جائے گا

زندگی میں تو پلٹ کر اسے دیکھا ہی نہیں
بہر تدفین مگر سارا نگر جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشق محبوب کی لذت ہو میسر جسکو
جانب دار بھی بے بے خوفو خطر جائےگا

فیصلہ ہوگا عدالت میں اسی کے حق میں
بہر قاضی جو لئے کیسہء زر جائے گا

دور سے پانی لگے گا پہ نہ ہوگا پانی
تشنہ لب دشت میں جس سمت بھی گر جائے گا

ابراہیم نوری

مار دے گا اگر خنجر تبسم سے
تو گنگناوں گا کیسے غزل ترنم سے۔۔۔۔

سجی ہے تیرے لئے کائنات شعر و سخن
غزل یہ میری ہے منسوب جان من تم سے

قضا نماز محبت نہ ہو کسی صورت
اگر وضو نہیں ممکن تو پڑھ تیمم سے

تو با ہنر ہے کہ ہے بے ہنر میرے جیسا
یہ راز بستہ کھلے گا تیرے تکلم سے

شناوری کا ہنر ہی مجھے نہیں آتا
بچاوں کیسے تجھے بحر پر تلاطم سے؟

مرے لئے تو میرے گھر کا حوض کافی ہے
کروں گا کیا بھلا لوگو میں بحر و قلزم سے

یذید وقت کی نیندیں حرام ہوتی ہیں
حسین اب بھی ترے اجتماع چہلم سے

ستارہ اس کے مقدر کا جب نہیں چمکا
اٹھا ہے دشمنی کرنے وہ بزم اانجم سے

میرے سفینہء ہستی کے ناخدا تم ہو
یہ ڈگمگا نہیں سکتا کسی تلاطم سے

کسی کے ساتھ مجھے دیکھ کر کسی نے کہا
یہ بےوفائی کی امید تو نہ تھی تم سے

نماز عشق خدا کی ادائیگی کے لئے
زمیں پہ آئے گا کوئی فلک چہارم سے

یہ لفظ سنتے ہی محبوب یاد آتے ہیں
جبھی تو انس ہے اس دل کو لفظ پنجم سے

قدم قدم پہ جہالت اسے ستائے گی
جو دور ہو گیا تعلیم اور تعلم سے۔۔۔۔۔

مجھے ہے جلدی مجھے اور کہیں بھی جانا ہے
کہا یہ اس نے کہ میں کل ملوں گا پھر تم سے

اسی سماج کے افراد سنگ دل نکلے
سماج خالی تھا جو جذبہء ترحم سے

خوشی سے لوٹنا اپنے وطن کو اے نوری
ہوا جو فارغ تحصیل حوزہء قم سے

کلام: محمد ابراہیم نوری

غزل 4

وہ جس سے پیار میں دیوانہ وار کرتا رہا
وہ پیٹھ پیچھے میرے مجھ پہ وار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔

جو شخص بندگیء کردگار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود کو دھر میں یوں ذی وقار کرتا رہا

عجیب شخص تھا وہ جب تلک رہا زندہ
خزاں کی رت میں بھی جشن بہار کرتا رہا

حصول جسکا میری دسترس سے باہر تھا
اسی کی چاہ دل بیقرار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔

یہ میری جان ہے قربان اس غزل خواں پر
فراز دار پہ جو ذکر یار کرتا رہا۔۔۔۔

خیال کیا ہے تمھارا ہمارے بارے میں؟
سوال مجھ سے کوئی بار بار کرتا رہا

کسی نے اسکو بٹھایا نہیں سواری پر
مسافروں کو جو بندہ سوار کرتا رہا

دیار غیر میں رہ کر بھی تجھکو خاک وطن
ہمیشہ یاد، دل خاکسار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔

نصیحتوں کی جسے خود بہت ضرورت تھی۔۔۔
وہ دوسروں کو نصیحت ہزار کرتا رہا

میری نگاہ میں منزل تھی روز اول سے
سو ضبط گردش لیل و نہار کرتا رہا

کسی کا مجھ سے یہ کہنا بھلا لگا مجھ کو
کہاں تھا تو؟ میں تیرا انتظار کرتا رہا۔۔۔۔۔۔

اسی پہ بارش نعمت مدام ہوتی رہی
جو شکر نعمت پروردگار کرتا رہا

جو شہر بھر میں نہ تھا اعتبار کے قابل
یہ دل اسہ پہ ہی کیوں اعتبار کرتا رہا؟

اسے گھمنڈ تھا اپنے امیر ہونے پر
سو میرے کے سامنے ڈالر شمار کرتا رہا

نکھرتا جائے گا فن بزم استعارہ کا 1
جو نوری چشم کرم شہریار کرتا رہا

1بزم استعارہ قم میں مقیم پاک و ہند شعراء کی ایک انجمن ہے

کلام:محمد ابراہیم نوری

 

"غزل"

کیا ہے کام یہ لیل و نہار آنکھوں نے
دکھایا جلوہ پروردگار آنکھوں نے

کبھی دکھایا ہے پژمردہ باغ فضل خزاں۔۔۔
کبھی دکھائی ہے فصل بہار آنکھوں نے۔۔۔۔۔

میں اپنے دل پہ یہ الزام دھر نہیں سکتا
تباہ مجھ کو کیا سرمہ دار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

حدیث دل جو چھپانے کی لاکھ کوشش کی
مگر کیا ہے اسے آشکار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوئی تھی ماں کی زیارت بھی بعد برسوں کے
بہائے اشک بھی بے اختیار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

تمھاری راہ کو تک کر اے یوسف دوراں۔۔۔۔۔
کیا ہے صبح و مسا انتظار آنکھوں نے

دکھا کے خواب زلیخائے درہم و دینار۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہے دل کو سدا بے قرار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔

تمھاری ایک ہی تصویر ہے جو پاس مرے
اسی کو پیار کیا بار بار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔

یہ اشک اس لئے بہتے ہیں میری آنکھوں سے
کہ کی ہے خواہش دیدار یار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم ان گناہوں سے توبہ کروگے کب نوری
کئے گناہ ہیں جو بے شمار آنکھوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد ابراہیم نوری

 

 

موافقین ۰ مخالفین ۰ 20/06/16
محمد ابراہیم نوری نوری

نظرات (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی