نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

نوری شعر و سخن

آثار و افکار محمد ابراہیم نوری

طبقه بندی موضوعی

۲ مطلب در سپتامبر ۲۰۲۲ ثبت شده است

Thursday, 15 September 2022، 02:17 PM

سلام 1444

جب سے غم شاہ کا اس دل میں بسایا ہوا ہے
مجھ کو ہر غم سے اسی غم نے بچایا ہوا ہے
 
موجۂ اشک عزا پلکوں پہ لایا ہوا ہے
ان منڈیروں پہ چراغوں کو جلایا ہو ہے
 
وقف کر کے یہ قلم آل محمد کے لئے
میں نے گھر خلد میں تعمیر کرایا ہوا ہے 
 
گھر میں رکھی ہوئی ہے خاک شفا کی تسبیح 
میں نے یوں گھر کو شفا خانہ بنایا ہوا ہے ہے
 
چھوٹے سے گھر عزا خانہ بنا کر میں نے
کچھ بڑی ہستیوں کو گھر پہ بلایا ہوا ہے
 
کربلا عرش معلی ہے، سو اپنے سر کو
آسمانوں نے ترے آگے جھکایا ہوا ہے
 
اسکو دیتی ہے دعا بالی سکینہ دل سے
اپنے ہاتھوں میں علم جس نے اٹھایا ہوا ہے
 
چادر زینب و کلثوم ہوئی جب قرباں 
تب کہیں جا کے سر دین پہ سایہ ہوا ہے
 
ہم عزاداروں نے ماتم کے نشاں کی صورت
اپنے سینوں پہ چراغوں کو سجایا ہوا ہے 
 
نور آنکھوں کا کبھی کم نہیں ہوگا نوری
سرمۂ خاک شفا ان پہ لگایا ہوا ہے
 
 
محمد ابراہیم نوری 
۱۶ صفر المظفر ۱۴۴ ھ ق
قم
 
 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 September 22 ، 14:17
محمد ابراہیم نوری نوری
Thursday, 15 September 2022، 02:15 PM

مری ہستی یوں ہی محو عزاداری رہے گی

 
یہ مجھ پر شہ کے غم کی کیفیت طاری رہے گی
مری ہستی یوں ہی محو عزاداری رہے گی
 
سناں کی نوک سے اک سر صدا یہ دے رہا ہے
کہ اہل حق کے دل پر میری سرداری رہے گی
 
جگانے کے لئے خفتہ بشر کو تا بہ محشر
 مرے شبیر کی تحریک بیداری رہے گی
 
بہت وزنی ہے تیر حرملہ اصغر کی نسبت
ہنسی اصغر کی اس پر تا ابد بھاری رہے گی
 
یزیدان زمانہ مات  کھاتے ہی رہیں گے 
خلاف ظلم، جنگ کربلا جاری رہے گی 
 
ہے نورانی سفینہ سے اسے اک خاص نسبت 
سو میرے خامے کی یہ تیز رفتاری رہے گی
 
مرا جادہ حسینی اور ترا رستہ یزیدی
سو تجھ سے دسمنی نوری کی اے ناری رہے گی
 
 
 
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 15 September 22 ، 14:15
محمد ابراہیم نوری نوری