Thursday, 15 September 2022، 02:17 PM
سلام 1444
جب سے غم شاہ کا اس دل میں بسایا ہوا ہے
مجھ کو ہر غم سے اسی غم نے بچایا ہوا ہے
موجۂ اشک عزا پلکوں پہ لایا ہوا ہے
ان منڈیروں پہ چراغوں کو جلایا ہو ہے
وقف کر کے یہ قلم آل محمد کے لئے
میں نے گھر خلد میں تعمیر کرایا ہوا ہے
گھر میں رکھی ہوئی ہے خاک شفا کی تسبیح
میں نے یوں گھر کو شفا خانہ بنایا ہوا ہے ہے
چھوٹے سے گھر عزا خانہ بنا کر میں نے
کچھ بڑی ہستیوں کو گھر پہ بلایا ہوا ہے
کربلا عرش معلی ہے، سو اپنے سر کو
آسمانوں نے ترے آگے جھکایا ہوا ہے
اسکو دیتی ہے دعا بالی سکینہ دل سے
اپنے ہاتھوں میں علم جس نے اٹھایا ہوا ہے
چادر زینب و کلثوم ہوئی جب قرباں
تب کہیں جا کے سر دین پہ سایہ ہوا ہے
ہم عزاداروں نے ماتم کے نشاں کی صورت
اپنے سینوں پہ چراغوں کو سجایا ہوا ہے
نور آنکھوں کا کبھی کم نہیں ہوگا نوری
سرمۂ خاک شفا ان پہ لگایا ہوا ہے
محمد ابراہیم نوری
۱۶ صفر المظفر ۱۴۴ ھ ق
قم


